اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی یہودی تنظیموں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور سول انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے علاج پر مامور ڈاکٹر اسیران پر تشدد کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے "مسیحاؤں” کے ہاتھوں جنگی جرائم جیسے ظالمانہ افعال کے ارتکاب پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی جانب سے ایک61 صفحات کی طویل رپورٹ جاری کی گئی ہے۔”جعلی دلائل” کےنام سے جاری اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے”شین بیٹ” نے فلسطینی اسیران سے پوچھ گچھ کے لیے ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ یہ ڈاکٹر مریض اسیران سےعلاج کی آڑ میں مختلف طریقوں سے معلومات جمع کرتے رہے ہیں۔ اس کےعلاوہ ڈاکٹرقیدیوں پر مبینہ طور پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے بھی مرتکب پائے گئے ہیں۔
تشدد کے خلاف سرگرم دونوں صہیونی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایسے ایک سو واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ڈاکٹروں کی اپنے پیشے سے غفلت اور تفتیش کار کی حیثیت سے قیدیوں کے ساتھ سلوک کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل میں سنہ دو ہزار سات کے بعد سے اب تک ایسےدرجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں فلسطینی اسیران کے علاج کے دوران ڈاکٹروں نےان پر تشدد کیا ہے۔ ان مریضوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے جو اسرائیلی ڈاکٹروں کےعلاج کے باوجود نہ صرف جاں بر نہیں ہو پائے بلکہ زندگی کی بازی ہار بیٹھے تھے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جیلوں میں اسیران کی ہونے والی ہلاکتیں انسانی حقوقکےاداروں کے لیے ایک لرزہ خیز داستان ہے، کیونکہ ڈاکٹروں کی جانب سے قیدیوںپرٹارچرکے واقعات کے انکشاف کے بعد یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ آیا اسرائیلیڈاکٹر کس حد تک اپنے پیشے سے دیانت داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کئی زخمی فلسطینیوں کو گرفتاری کے بعد ایسے ڈاکٹروں کے حوالے کر دیتی ہے جو ان سے علاج کی آڑ میں معلومات جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران مریض کی جانب سے معلومات کی فراہمی میں پس وپیش سے کام لیے جانے کی صورت میں اسیران کا علاج ترک کر دیا جاتا اور انہیں دوبارہ اسی حالت میں اسرائیلی فوج کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
یہودی انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر جیسے انسان دوست پیشے کا غلط استعمال کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسرائیل میں یہ سلسلہ طویل مدت سے چلا آ رہا ہے،تاہم اس میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اسے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔