اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے ادارے”اوچا” نے محاصرہ زدہ فلسطینی شہرغزہ کی پٹی کی معاشی صورت حال اور شہریوں کو درپیش مشکلات پر شدید تشویش کااظہار کیا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 2010ء میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے جو اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا، ان پر ذرا
.بھی عمل درآمد نہیں کیاگیا۔
"اوچا” کی جانب سے جاری ایک بیان کی نقل مرکز اطلاعات فلسطین کو بھی موصول ہوئی ہے، جس میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے تسلسل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بغیر کسی جواز کے غزہ کی ڈیڑھ ملین سے زائد آبادی کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنا عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہےجسے لاکھوں افراد کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ کی دارآمدت وبرامدات ختم، شہریوں کا غزہ کی پٹی سے باہر آنے جانے کے راستوں پر پابندی، کسانوں کی ضروریات میں رکاوٹیں اور ماہی گیروں پر حملے ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے غزہ کے انفراسٹرکچرکو تباہ کردیا ہے۔
اوچا نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے تسلسل پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال قبل اسرائیل کی جانب سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی میں نرمی لانے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم صہیونی حکومت کی جانب معاشی ناکہ بندی میں نرمی لانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور شہرمیں باہرسے اشیائے ضروریہ کی آمد اب بھی 40 فی صد سے کم ہیں جبکہ سنہ 2007ء میں بیرونی آمد اس سے کہیں زیادہ تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اور بیرونی تجارت کا انحصار مقامی مصنوعات کی مغربی کنار، عرب ممالک اور یورپ تک رسائی پرتھا۔ لیکن صہیونی حکومت کی جانب سے بحری اور بری راستوں پرعائد پابندیوں کے باعث نہ توغزہ سے باہر سے کوئی چیزشہر کے اندر لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی شہرکے اندر سے کوئی چیز دوسرے علاقوں کو منتقل کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں بے روزگاری اورمہنگائی کا دور دورہ ہے۔
عالمی ادارے نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ انتقامی سیاست کا رویہ ترک کرتے ہوئے غزہ پرعائد معاشی پابندیاں جلد ازجلد ختم کرے۔ اوچا نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور امدادی اداروں سے بھی محصورین غزہ کی بڑھ چڑھ کر مدد کی اپیل کی ہے۔