اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں سیکڑوں فلسطینی تعمیرات کو گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ صہیونی حکام 1993ء کے اوسلو معاہدے کے تحت کیٹگری سی کے علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی یہودی آبادیوں کو خالی کروانے سے تاحال گریزاں ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال پانچ سے قریب فلسطینیوں کی زیر ملکیت تعمیرات کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا۔ ان تعمرات میں رہائشی مکانات، عارضی خیمے، باڑے، کنویں اور دیگر اقسام کی تعمیرات شامل ہیں۔ ان تعمیرات کو گرانے سے ایک ہزار فلسطینی شدید متاثر ہوئے۔
تعمیرشدہ مکانات کو گرانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی انتظامیہ نے فلسطینی شہریوں کو تعمیرات کی اجازت دینے سے بھی انکار جاری رکھا جس کی بنا پر متعدد شہری عارضی خیموں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تاہم ان خیموں کو بھی غیر قانونی قرار دے کر اکھاڑ دیا جاتا رہا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اسرائیلی انتظامیہ اور عدالتوں نے بہت سی فلسطینی تعمیرات کو گرانے کے احکامات بھی صادر کیے ہیں۔ جن تعمیرات کو منہدم کرنے کے نوٹسز جاری کیے گئے ان میں 32 اسکول بھی شامل ہیں، ان مدارس کی مسماری سے ایک ہزار فلسطینی طلبہ تعلیم سے محروم ہوں گے۔
ایک جانب اسرائیلی حکام مغربی کنارے کے فلسطینی شہریوں پر مظالم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں تو دوسری جانب اسی کیٹگری ’سی‘ کے علاقے میں غیرقانونی یہودی آبادیوں کو تحفظ دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیلی وزراء کی ایک کمیٹی نے اتوار کے روز یہودی بستیوں کو خالی کروانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ایک قانون پر بحث کی ہے۔
اس قانون کے بعد انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اور رہائشی قوانین کی صریح خلاف ورزی پر مبنی یہودی آبادیوں کو جواز عطا کیا جائے گا۔اسرائیلی ابلاغ کے مطابق یہودی آباد کاروں کی قیادت اور دائیں بازوں کے سیاست دان وزراء کمیٹی پر مسلسل دباؤ دے رہے ہیں کہ یہودی آبادیوں کے تحفظ کے اس قانون کو جلد از جلد منظور کر لیا جائے۔