اسرائیلی اعلی جج مئیر شمغار کی سربراہی میں اسرائیلی مرکزی حکومت کی کمیٹی نے مستقبل میں فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیےمعیارات بنا کر اپنی حتمی تجاویز اسرائیلی وزیر دفاع ایھود باراک کو بھیج دی ہے۔
انتجاویز کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل آئندہ اسیران کے تبادلے میں انتہائی تنگ حالات کے علاوہ کبھی اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہو گا، مزید برآں ان شرائط کو مزید سخت کیا جاتا رہے گا۔
کثیر الاشاعت عبرانی روزنامے ’’یدیعوت احرونوت‘‘ کے مطابق اپنی تجاویز میں مرکزی کمیٹی نے اسیران کے تبادلے کے مذاکرات کی حدود متعین کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی اسرائیلی اسیر کی رہائی کے لیے ایک یا چند فلسطینی یا عرب شہریوں سے زیادہ کو رہا نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ اب تک اس اصول کی پیروی نہیں کی جاتی رہی۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کسی مردہ اسرائیلی فوجی کے بدلےکسی زندہ عرب اسیر کو رہا نہ کیا جائے چنانچہ آئندہ کوئی اسرائیلی اتھارٹی اپنےفوت شدہ فوجیوں اور شہریوں کے بدلے میں زندہ عرب اسیران کی رہائی کے مذاکرات نہ کرے۔
تبادلہ اسیران کے متعلق نئی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ آئندہ صہیونی حکام زندہ کے بدلے زندہ اور مردہ کے بدلے مردہ پر ہی مذاکرات کے پابند ہونگے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکام صرف ان اسرائیلی شہریوں کے بدلے عرب اسیران کو رہا کرنے کے مذاکرات کریں جنہیں خاندان سمیت اغوا کیا جائے۔
کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ مستقبل میں اسرائیلی حکام ہر کیس پر انفرادی غور کریں اور صرف کریمنل کیسز میں گرفتار کیے گئے صہیونیوں کی رہائی کےبدلے اس سے کم قیمت ادا کریں جو کسی اسرائیلی فوجی کی رہائی کے لیے ادا کی جا سکتی ہے۔
مزید برآں صہیونی اتھارٹی کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ تبادلہ اسیران پر اپنے مذاکرات کو ہر حال میں پوشیدہ رکھے اور اپنے افراد کی رہائی کے لیے اعلانیہ مذاکرات سے گریز کرتی رہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اسرائیلی حکومت نے اپنے ایک فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ 1027 فلسطینی اسیران کی رہائی کا معاہدہ کیا تھا جس کے بعد تبادلہ اسیران کے معاہدوں کی حدود متعین کرنے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔