اسرائیل میں فلسطینیوں کی املاک اور اراضی پر قبضے کے لیے قانون سازی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے صہیونی کنیسٹ میں کوئی نہ کوئی قانون زیربحث رہتا ہے۔ حال ہی میں اراکین کینسٹ نے ایک نیا قانون منظور کرانے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ اس قانون کی منظوری کے بعد کوئی بھی فلسطینی یہودیوں کے قبضے میں اپنی کسی بھی قسم کی جائیداد کےحصول کا دعویٰ نہیں کر سکے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق نئے مسودہ قانون پربحث شروع کرانے کے لیے اس پر بیس اراکین کنیسٹ کے دستخط کرا لیے گئے ہیں۔ پرسوں اتوار کے روز اس قانون پر بحث شروع کی جائے گی۔
صہیونی ذرائع ابلاغ میں آنے والے اس قانون کے بعض مندرجات میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فلسطینی اپنی اس جائیداد/ املاک پر یہودیوں کے قبضے کو چار سال کے اندراندر چیلنج کرنے کا حق رکھے گا۔ چار سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد اس قانون کی رو سے کوئی فلسطینی اپنی آئینی ملکیت کا حق کھو دے گا اور یوں املاک اور جائیدادوں پر یہودیوں کا قبضہ آئینی تصور کیا جائے گا۔
قانون کے تحت کوئی فلسطینی اگر اسرائیلی عدالتوں سے اپنی جائیداد کے بارے میں رجوع کرے گا توعدالت فلسطینیوں کی درخواستیں قبضے کے چار سال کے بعد مسترد کر دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ میں اس نئے ظالمانہ قانون کا مقصد فلسطینیوں کی املاک پر یہودیوں کے قبضے کو آئینی اورقانون تحفظ فراہم کرنا ہے۔ چونکہ اسرائیلی عدالتوں میں ایسے سیکڑوں مقدمات موجود ہیں جن میں فلسطینیوں نے اپنی ملکیتی زمینوں اور دیگر املاک پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کوچیلنج کر رکھا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر اس فلسطینی کی درخواست ناقابل سماعت ہو گی جس کی املاک پر یہودیوں کا قبضہ ہوئے چار سال یا اس سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہو گا۔