(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) رپورٹ کے مطابق ترکی نے حماس کے رہنماؤں کو بتا دیا ہے کہ اس کے وہ ارکان جن کے پاس فوجی عہدے ہیں ترکی میں نہیں رہیں گے‘ اور ’انہیں کوئی فوجی امداد نہیں دی جائے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے کی جاری ایک رپورٹ کے مطابق ترکی کی جانب سے معیشت کی بحالی کیلیے گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے خطے کے کئی ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات جاری ہیں اورسب سے زیادہ شدت سےقابض ریاست اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی نوعیت سامنے آئی ہے جس میں اسرائیل کے حریف اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ارکان کی ملک بدری کے معاملات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ترکی نے حماس کے رہنماؤں کو بتا دیا ہے کہ اس کے وہ ارکان جن کے پاس فوجی عہدے ہیں ترکی میں نہیں رہیں گے‘ اور ’انہیں کوئی فوجی امداد نہیں دی جائے گی البتہ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر ترک حکام کی جانب سے تاحال کسی قسم کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
ایک جانب ترک حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان اتفاق ہو جانے کے باوجود ’ترکی فلسطینیوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا اور فلسطینی ریاست کے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے گادوسری جانب حماس کے فوجی عہدیداران کو ملک بدری کے احکامات کی اصل حقیقت9 مارچ تک ترکی میں صہیونی صدر اسحاق ہرزوگ کے دورے تک پوشیدہ رکھے جانے کے امکانات ظاہر کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ایک تلخ جھگڑے کے بعد 2018 میں اسرائیل اور ترکی نے ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک سے نکال دیا تھا اور تب سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ چلےآرہے ہیں۔