(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) گذشتہ روز دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں واشنگٹن نے قطر اور مصر کی حمایت سے دونوں فریقوں کو ایک تجویز پیش کی ہے جو دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج کو کم کرتی اور 31 مئی 2024 کو صدر بائیڈن کے قائم کردہ اصولوں اور سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 2735 سے مطابقت رکھتی ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ پر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے گذشتہ 9 ماہ سے جاری وحشیانہ بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے مصر ، قطر اور امریکہ کی جانب سے ایک مذاکراتی نشت کا اہتمام کیا گیا جس کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی خبریں ہیں ۔
جمعے کی شام اسرائیلی مذاکراتی وفد کے دوحہ سے تل ابیب واپس آنے کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ثالثوں امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے ایک بیان میں مذاکرات کے حوالے سے ایک نئی بات سامنے لائی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ دوحہ میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران امریکہ، مصر اور قطر کے اعلیٰ حکام نے ثالث کے طور پر غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرنے اور اس کی رہائی کے مقصد سے وسیع مذاکرات کیے جو سنجیدہ اور تعمیری تھے۔
بیان میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ واشنگٹن نے قطر اور مصر کی حمایت سے دونوں فریقوں کو ایک تجویز پیش کی ہے جو دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج کو کم کرتی اور 31 مئی 2024 کو صدر بائیڈن کے قائم کردہ اصولوں اور سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 2735 سے مطابقت رکھتی ہے۔
ثالثوں کے مشترکہ بیان کے مطابق یہ تجویز گزشتہ ہفتے کے دوران حاصل کیے گئے معاہدے کے نکات پر استوار کی گئی ہے۔ یہ تجویز باقی رہ جانے والے خلا کو اس طریقے سے پُر کرتی ہے جس سے معاہدے کے تیزی سے نفاذ کی اجازت ملتی ہے۔
بیان میں یہ کہا گیا کہ تکنیکی ٹیمیں آنے والے دنوں کے دوران عمل درآمد کی تفصیلات پر کام جاری رکھیں گی۔ اس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں سے متعلق حصوں کے علاوہ معاہدے کے جامع انسانی ہمدردی کے حصوں پر عمل درآمد کے انتظامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
بیان میں اعلان کیا گیا کہ امریکہ، مصر اور قطر کے سینئر حکام اگلے ہفتے کے اختتام سے قبل قاہرہ میں دوبارہ ملاقات کریں گے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ پیش کی گئی شرائط کے مطابق دونوں فریق کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے کہا ہے کہ اب ضائع کرنے کا کوئی وقت نہیں ہے اور کسی بھی فریق کی طرف سے کوئی ایسا عذر قبول نہیں کیا جا سکتا جو مزید تاخیر کا جواز پیش کرے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی شروع ہو جائے۔ جنگ بندی کی جائے اور اس معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔حماس کا انکارحماس نے مجوزہ معاہدے پر تبصرہ کیا ہے اور حماس کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ ہم دوحہ میں مجوزہ معاہدے میں اسرائیل کی طرف سے رکھی گئی نئی شرائط کو مسترد کرتے ہیں۔ قیادت کے ایک ذریعے نے بتایا کہ اسرائیلی وفد نے رکاوٹ ڈالنے کے اپنے نقطہ نظر کے تناظر میں نئی شرائط طے کی ہیں۔ اس میں مصر کے ساتھ سرحدی پٹی کے علاقے فلاڈیلفیا محور میں فوجی دستوں کو رکھنے پر اصرار کیا گیا ہے۔