(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) لبنان کی اسلامی مزحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ غزہ میں جاری جنگ اور آپریشن طوفان الاقصیٰ کے ایک ماہ بعد جنگ اور خطے کے حالات سے متعلق خصوصی خطاب کیا ہے۔ اس خطاب کے لئے پوری دنیا کے حکمران اور عوام کئی دنوں سے منتظر تھے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے خطاب کے آغاز میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام شہداکو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے غاصب صیہونی دشمن کے مقابلہ میں شہادت حاصل کی۔طوفان الاقصی کی جنگ ایک سے زیادہ محاذوں اور ایک سے زیادہ میدانوں میں پھیل چکی ہے۔
اگر آج ہم کوئی مکمل قانونی جنگ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو صیہونیوں سے لڑائی جیسی کوئی قانونی جنگ نہیں ہے غاصب صیہونیوں کے ساتھ جنگ اخلاقی اور قانونی دونوں سطحوں پر شک و شبہ سے بالاتر ہے ہماری طاقت صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس ایمان اور بصیرت سے ہے جو ہم رکھتے ہیں۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ غاصب صیہونی دشمن کے ساتھ اس جنگ میں داخل ہونے والے عراقی اور یمنی ہتھیاروں کو سلام پیش کرتا ہوں ہزاروں فلسطینی قیدی کئی برسوں سے غاصب صیہونی دشمن کی جیلوں میں بغیر کسی جرم کے قید ہیں غاصب صیہونیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے تقدس کے خلاف ہرزہ سرائیاں جدید تاریخ کی بے مثال خلاف ورزیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے بیس لاکھ لوگ 20 سال سے سخت محاصرے میں رہ رہے ہیں اور ان پر زندگی تنگ کی گئی ہے۔ دنیا نے مسئلہ فلسطین اور اس سے متعلق تمام باتوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی۔غزہ میں جو کچھ ہوا وہ مسئلہ فلسطین کو دنیا کے پہلے مسئلے کے طور پر دوبارہ پیش کرنے کے لیے ضروری تھا۔7 اکتوبر کے آپریشن کی شاندار کامیابی مکمل رازداری ہے جس نے دنیا کی حیرت کے عنصر کو یقینی بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ7 اکتوبر کے آپریشن کو مخفی رکھنے کا کسی دوسرے مزاحمتی محاذ پر قطعی طور پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک حماس کی کارکردگی نے آپریشن الاقصیٰ کے ذریعہ مکمل فلسطینی شناخت کو ثابت کیا ہے اور آپریشن طوفان الاقصیٰ نے ثابت کیا کہ یہ مکمل طور پر فلسطینی فیصلہ ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ مزاحمتی تحریکوں کا فیصلہ مزاحمتی تحریکوں کے قائدین کرتے ہیں اور ایران اسے قبول کرتا ہے، حمایت کرتا ہے اور مدد کرتا ہے آپریشن طوفان الاقصی ٰمکمل طور پر فلسطینی جنگ ہے اور اس کا کسی علاقائی فائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ آپ سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حقیقی فیصلہ ساز مزاحمت کے رہنما ہیں۔ ایران خطے میں مزاحمتی تحریکوں پر کسی قسم کی ڈکٹیٹرشپ نہیں کرتا۔آپریشن طوفان الاقصی نے غاصب اسرائیلی وجود میں سیکورٹی، فوجی، نفسیاتی اور اخلاقی زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ الاقصی آپریشن کے اسٹریٹجک نتائج تھے جو فلسطین سمیت حماس کے حال اور مستقبل پر اثر انداز ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ غاصب صیہونی دشمن نے جو کچھ کیا ہے وہ اسرائیل کے مستقبل سمیت آپریشن الاقصی کے نتائج اور اثرات کو تبدیل نہیں کر سکتا۔آپریشن الاقصیٰ نے غاصب صیہونی دشمن کی کمزوری کو ظاہر کیا ہے اور یہ کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔ٓج غاصب اسرائیلیوں کو دوسروں سے زیادہ اس بات پر یقین ہو گیا ہے کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔
انہوں نے اسرائیل ک وامریکی امداد کے بارے میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مدد اور اسرائیل کو گلے لگانے اور اس کی حمایت میں تیزی نے امریکہ اور اس کے اداروں کی کمزوری اور ناکامی کو ظاہر کیا ہے۔ یہ اسرائیل ہی تھا جس نے آپریشن طوفان الاقصی کے پہلے ہی دن امریکہ سے ہتھیار اور مالی مدد مانگ لی جنگ کے پہلے دن سے ہی دشمن حکومت کو بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کی فوجی مدد کی ضرورت تھی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ غزہ کے عوام کی قیمتی قربانیوں نے فلسطینی عوام اور اس خطے اور اس کے عوام کی قسمت میں ایک نیا تاریخی مرحلہ قائم کیا ہے۔آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ غاصب صیہونی دشمن ہار گیا ہے۔ جب قابض صیہونی فوج بستیوں پر قبضہ کرنے گئی تو انہوں نے خود ہی صیہونی آباد کاروں کا قتل عام کیا۔دنیا تحقیق کرے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ عام شہری (صیہونی آباد کار)تھے جو حماس کے ہاتھوں مارے گئے تھے در حقیقت اسرائیلی فوج کے اپنے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غاصب صیہونی دشمن حکومت کی سب سے اہم غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی ایسے ہدف کا تعین ہے جسے وہ حاصل نہیں کر سکتے، جیسے حماس کو ختم کرنا,غاصب صیہونی دشمن نے پہلے 2006 میں اعلان کیا تھا کہ اس کا ہدف حزب اللہ کو ختم کرنا ہے جو حاصل نہیں ہو سکا۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غاصب اسرائیلیوں کی حماقت اور نامردی کا پتہ چلتا ہے۔ غاصب دشمن کے سامنے کسی چیز کی کوئی حرمت نہیں ہے۔دنیا کی آنکھوں کی سامنے پورے پورے محلوں کو تباہ کر رہا ہے پورے ایک ماہ تک غاصب صیہونی دشمن کی فوج غزہ میں ایک بھی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے غزہ میں ایک ماہ کی جنگ کے بعد غاصب دشمن ایک بھی فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
حزب اللہ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ غاصب صیہونی دشمن کی فوج کو 75 سال سے ہچکچاہٹ، خوف، کمزوری اور قتل عام کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔غزہ میں قتل و غارت گری کے ذریعے غاصب صیہونی دشمن کسی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے۔غزہ میں جو آج کچھ ہو رہا ہے اس سے ایک بار پھر اس غاصب صیہونی دشمن کی سفاکیت کا پتہ چلتا ہے۔ہم غاصب صیہونی دشمن سے کہتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ غزہ کی فتح ہو گی۔مصر، شام، اردن اور لبنان کے لوگ، جن میں سب سے پہلے فلسطینی لوگ ہیں، جو اسرائیل کی آگ میں جل رہے ہیں۔غزہ کے شہداء نے ان تمام جھوٹے نقابوں کو بے نقاب اور گرا دیا جو ہمارے عوام کو اسرائیل کے ساتھ معمول پر لانے کے لیے دھوکہ دیتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ تیس دن تک غزہ کو عالمی برادری اور دنیا کے ممالک کے سامنے کچل دیا گیا، کسی نے کچھ نہیں کیا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مکمل طور پر ذمہ دار امریکہ ہے اور اسرائیل محض ایک انتظامی آلہ ہے۔امریکہ کو اس کے جرائم اور فلسطینی عوام کے خلاف قتل عام کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بنیادی طور پر ذمہ دار امریکہ ہے اور وہی جارحیت کو روکنے سے روک رہا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ رائے عامہ کی جنگ میں ان حقائق کو واضح کرنا دنیا کے ہر آزاد اور باعزت شخص کا فرض ہے۔ہم اس جنگ میں داخل ہونے پر عراق میں اسلامی مزاحمت کی تعریف کرتے ہیں۔آج عالمی رائے عامہ ظالموں کے خلاف ہونے لگی ہے۔ آج غزہ کے عوام کا دفاع انسانیت کا تقاضا ہے۔غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دوسری پچھلی جنگوں کی طرح جنگ نہیں ہے، بلکہ ایک فیصلہ کن، تاریخی جنگ ہے غزہ میں جنگ سے پہلے اس جیسی جنگ اور نہ اس کے بعد ایسی کوئی جنگ کی مثال ملے گی۔
ان کاکہنا تھا کہ پہلا مقصد جس کے لیے دن رات کام کرنا ضروری ہے وہ غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ اور اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے مقاصد میں جارحیت کو روکنا، مزاحمت کو فتح دلانا اور غزہ میں حماس کی فتح ہے۔غزہ میں فتح کا مطلب فلسطینی عوام، یروشلم، الاقصیٰ، مغربی کنارے اور قیدیوں کی فتح ہے۔ غاصب صیہونی دشمن غزہ کی ریت میں غرق ہونے کے باوجود لبنان اور اہلِ لبنان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔غزہ میں فتح فلسطینی عوام اور خطے کے عوام بالخصوص پڑوسی ممالک کی فتح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کو غزہ پر جارحیت روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتیں غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کریں اور اسرائیل کو تیل اور گیس کی سپلائی روک دیں۔آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری کا مطالبہ کرنے سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ عراق میں اسلامی مزاحمت نے اپنی ذمہ داری قبول کرنا شروع کی اور اعلان کیا کہ وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔ یمنی میزائل اور ڈرونز ایلات اور اسرائیلی فوجی اڈوں تک پہنچیں گے۔ہم جنوبی لبنان میں 8 اکتوبر سے جنگ میں ہیں آج سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا معروضی طور پر جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ یہ بہت اہم ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہمارے لبنانی محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اسرائیلی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے ہم کسی بھی صورت میں اس سے مطمئن نہیں ہوں گے بلکہ دشمن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔ ہمارے لبنان کے محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ جولائی 2006 کی جنگ میں بھی نہیں ہوا۔ لبنانی سرحد پر ہماری کارروائیوں میں غاصب صیہونی دشمن کی گاڑیوں، فوجیوں اور آلات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت اکتوبر سے جنگ لڑ رہی ہے اور یہ گزشتہ لڑائیوں سے مختلف ہے القسام اور القدس بریگیڈ کے شہداء سمیت تقریباً 57 شہدا ہیں۔ جنوبی لبنان کی سرحد پر جو کارروائیاں شروع ہوئیں اور بڑھتی چلی گئیں اس نے دشمن کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی افواج کو سرحد پر رکھے اور ان میں سے زیادہ کو متحرک کرے۔ لبنانی محاذ نے غاصب افواج کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچایا اور ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ مشغول کیاجو غزہ پر حملے کے لیے استعمال ہونے والی تھی۔جنوبی لبنان کا محاذ اسرائیلی فوج کے ایک تہائی حصہ کو لبنان
کی سرحد کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔غاصب افواج کا ایک بڑا اور اہم حصہ اور باقاعدہ افواج ہیں جو غزہ کی طرف جا سکتی تھیں لیکن ہم نے جنوبی لبنان کے محاز پر ان کو مصروف کیا۔
سید حسن نصر اللہ کاکہنا تھا کہ اس وقت غاصب فوج کی لاجسٹک فورسز کا تقریباً ایک تہائی حصہ لبنانی سرحد کی طرف مصروف ہے جنوبی لبنان کے محاذ نے اسرائیلی سرحدی کالونیوں کے دسیوں ہزار صیہونی آباد کاروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جنوبی لبنان کی سرحد پر کارروائیوں نے اسرائیلی دشمن کی قیادت اور یہاں تک کہ واشنگٹن میں بھی بے چینی، اور خوف کی کیفیت پیدا کردی ہے۔جنوبی لبنان سے ہماری کارروائیوں سے دشمن لبنان کی طرف اپنے تمام کام کا حساب لگاتا ہے اور معاملات بگڑنے کے خوف سے اپنی رفتار کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ جنوبی لبنان کی سرحد پر اسرائیل کے خلاف ہماری روزانہ کی کاروائیاں دشمن کو عبرت کا نشان بنا رہی ہیں جنوبی لبنان کے محاذ پر ہماری کارروائیاں غاصب صیہونی دشمن کو بتاتی ہیں کہ اگر اس نے لبنان پر حملہ کیا تو وہ اپنے وجود کی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کرے گا۔غزہ کے یہ مناظر ہمیں ثابت قدمی، چیلنج اور ہتھیار اٹھانے کی ضرورت میں مزید پر اعتماد بنائیں گے۔ہماری غاصب دشمن کے خلاف کارروائیاں اور ہمارے لوگوں کی قربانیاں غزہ کے لوگوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے ہماری یکجہتی کا اظہار ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے امریکی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپریشن الاقصیٰ کے پہلے دن سے بتایا گیا کہ امریکی بحری بیڑے ہم پر بمباری کریں گے اور ہمارے لیے آئے ہیں۔ہمارا محاذ غزہ کے ساتھ یکجہتی کا محاذ ہے اور یہ وہاں کی صورتحال کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔ ہمارے لبنانی محاذ پر دشمن کے خلاف تمام امکانات کھلے ہیں تمام آپشنزمیز پر ہیں اور ہم کسی بھی وقت ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ہم سب کو تمام امکانات اور آپشنز کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ہمیں پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ اگر ہم جنوب میں اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے تو امریکہ ایران پر بمباری کرے گا۔یہ دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کریں گی، اور ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم آپ کے بحری بیڑوں کے لیے تیار ہیں جو ہمیں ان سے دھمکیاں دیتے ہیں میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے آپ کو 1980 کی دہائی کے اوائل میں شکست دی تھی وہ ابھی تک زندہ ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ آپ غزہ پر جارحیت کو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ کی جارحیت ہے۔ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ جو بھی خطے میں محاذوں کی توسیع کو روکنا چاہتا ہے اسے غزہ کی پٹی کے خلاف جارحیت کو روکنا ہوگا۔ ہماری لڑائی ناک آؤٹ سے فتح کے مرحلے تک نہیں پہنچی لیکن ہم ریاضی سے جیت چکے ہیں۔یہ جنگ استقامت، صبر، برداشت، کامیابیوں کو جمع کرنے اور دشمن کو
اپنے مقاصد کے حصول سے روکنے کی جنگ ہے ہمیں غزہ کی فتح کے لیے اور غزہ میں مزاحمت کی فتح کے لیے کام کرنا چاہیے میں غزہ اور مغربی کنارے کے اپنے لوگوں اور تمام مظلوم لوگوں سے کہتا ہوں کہ صبر سے فتح حاصل ہوگی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہمارے لبنانی محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اسرائیلی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے ہم کسی بھی صورت میں اس سے مطمئن نہیں ہوں گے بلکہ دشمن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔ ہمارے لبنان کے محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ جولائی 2006 کی جنگ میں بھی نہیں ہوا۔ لبنانی سرحد پر ہماری کارروائیوں میں غاصب صیہونی دشمن کی گاڑیوں، فوجیوں اور آلات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت اکتوبر سے جنگ لڑ رہی ہے اور یہ گزشتہ لڑائیوں سے مختلف ہے القسام اور القدس بریگیڈ کے شہداء سمیت تقریباً 57 شہدا ہیں۔ جنوبی لبنان کی سرحد پر جو کارروائیاں شروع ہوئیں اور بڑھتی چلی گئیں اس نے دشمن کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی افواج کو سرحد پر رکھے اور ان میں سے زیادہ کو متحرک کرے۔ لبنانی محاذ نے غاصب افواج کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچایا اور ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ مشغول کیاجو غزہ پر حملے کے لیے استعمال ہونے والی تھی۔جنوبی لبنان کا محاذ اسرائیلی فوج کے ایک تہائی حصہ کو لبنان
کی سرحد کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔غاصب افواج کا ایک بڑا اور اہم حصہ اور باقاعدہ افواج ہیں جو غزہ کی طرف جا سکتی تھیں لیکن ہم نے جنوبی لبنان کے محاز پر ان کو مصروف کیا۔
سید حسن نصر اللہ کاکہنا تھا کہ اس وقت غاصب فوج کی لاجسٹک فورسز کا تقریباً ایک تہائی حصہ لبنانی سرحد کی طرف مصروف ہے جنوبی لبنان کے محاذ نے اسرائیلی سرحدی کالونیوں کے دسیوں ہزار صیہونی آباد کاروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جنوبی لبنان کی سرحد پر کارروائیوں نے اسرائیلی دشمن کی قیادت اور یہاں تک کہ واشنگٹن میں بھی بے چینی، اور خوف کی کیفیت پیدا کردی ہے۔جنوبی لبنان سے ہماری کارروائیوں سے دشمن لبنان کی طرف اپنے تمام کام کا حساب لگاتا ہے اور معاملات بگڑنے کے خوف سے اپنی رفتار کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ جنوبی لبنان کی سرحد پر اسرائیل کے خلاف ہماری روزانہ کی کاروائیاں دشمن کو عبرت کا نشان بنا رہی ہیں جنوبی لبنان کے محاذ پر ہماری کارروائیاں غاصب صیہونی دشمن کو بتاتی ہیں کہ اگر اس نے لبنان پر حملہ کیا تو وہ اپنے وجود کی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کرے گا۔غزہ کے یہ مناظر ہمیں ثابت قدمی، چیلنج اور ہتھیار اٹھانے کی ضرورت میں مزید پر اعتماد بنائیں گے۔ہماری غاصب دشمن کے خلاف کارروائیاں اور ہمارے لوگوں کی قربانیاں غزہ کے لوگوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے ہماری یکجہتی کا اظہار ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے امریکی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپریشن الاقصیٰ کے پہلے دن سے بتایا گیا کہ امریکی بحری بیڑے ہم پر بمباری کریں گے اور ہمارے لیے آئے ہیں۔ہمارا محاذ غزہ کے ساتھ یکجہتی کا محاذ ہے اور یہ وہاں کی صورتحال کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔ ہمارے لبنانی محاذ پر دشمن کے خلاف تمام امکانات کھلے ہیں تمام آپشنزمیز پر ہیں اور ہم کسی بھی وقت ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ہم سب کو تمام امکانات اور آپشنز کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ہمیں پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ اگر ہم جنوب میں اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے تو امریکہ ایران پر بمباری کرے گا۔یہ دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کریں گی، اور ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم آپ کے بحری بیڑوں کے لیے تیار ہیں جو ہمیں ان سے دھمکیاں دیتے ہیں میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے آپ کو 1980 کی دہائی کے اوائل میں شکست دی تھی وہ ابھی تک زندہ ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ آپ غزہ پر جارحیت کو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ کی جارحیت ہے۔ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ جو بھی خطے میں محاذوں کی توسیع کو روکنا چاہتا ہے اسے غزہ کی پٹی کے خلاف جارحیت کو روکنا ہوگا۔ ہماری لڑائی ناک آؤٹ سے فتح کے مرحلے تک نہیں پہنچی لیکن ہم ریاضی سے جیت چکے ہیں۔یہ جنگ استقامت، صبر، برداشت، کامیابیوں کو جمع کرنے اور دشمن کو
اپنے مقاصد کے حصول سے روکنے کی جنگ ہے ہمیں غزہ کی فتح کے لیے اور غزہ میں مزاحمت کی فتح کے لیے کام کرنا چاہیے میں غزہ اور مغربی کنارے کے اپنے لوگوں اور تمام مظلوم لوگوں سے کہتا ہوں کہ صبر سے فتح حاصل ہوگی۔