(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) صیہونی ریاست میں ٹوٹ پھوٹ اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اب وزیراعظم کے چیف آف اسٹاف نے اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کو پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران کہا ہے کہ یہ ایک ’’بے شرم شخص ہے اسے لازماً برطرف کیا جانا چاہیے۔‘
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل ایک شدت پسند اور ناجائز رریاست تو ہے لیکن اب یہ ایک رنگ برنگی ریاست کے طور پر اس وقت اور نمایاں ہو گئی ہے جب اسرائیلی پارلیمنٹ میں وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے حکومتی مسودہ قانون کے خلاف ووٹ دے کر انتہا پسند اور کٹر مذہبی یہودیوں کو لازمی فوجی خدمات سے استثنا دینے کی مخالفت کر دی۔
اسرائیلی کنیسٹ میں یہ مسودہ پیر کی شام ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے دفتر کے لیے انتہائی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو گئی جب ان کی کابینہ کے اہم رکن اور موجود وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کی طرف سے اس مسودہ قانون کی مخالفت کیے جانے پر وزیر دفاع کو ’’احمق‘‘ اور ’’بے شرم‘‘، تک کہہ دیا۔
اسرائیل کے ایک اخبار نے اس صورت حال کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ‘اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے چیف آف سٹاف ٹارچی بریو مین نے اس وجہ سے غصے سے یہ تک کہہ دیا کہ یوآو گیلنٹ ایک ’’بے شرم شخص ہے اسے لازماً برطرف کیا جانا چاہیے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ مخلوط حکومت کے حامی 64 ارکان میں وزیر دفاع وہ واحد رکن پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے اس مسودہ قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔
یوں پارلیمنٹ میں اس استثنا دیے جانے سے متعلق قانون کے حق میں 63 اور مخالفت میں 57 ووٹ پڑے ہیں۔اگرچہ پارلیمنٹ کے موجودہ کل 120 ارکان کی اکثریت نے اس مسودہ کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن وزیر دفاع کے مخالفت میں آنے والے ووٹ سے اس استثنائی قانون کی اخلاقی حیثیت مزید کمزور ہو گئی ہے۔
یوآو گیلنٹ کے اس رویے کی وجہ سے مخلوط حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیز اسرائیل کی غزہ میں جنگ لڑنے والی اعلیٰ اسرائیلی قیادت کے باہمی اختلافات بھی ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں۔
اس وجہ سے ووٹنگ کے بعد وزیر اعظم کے وزیر دفاع کے بارے میں جذبات کو ان کے دفتر نے خوب غصے کے ساتھ ظاہر کر دیا۔
پارلیمنٹ میں 63 اکثریتی ووٹ ملنے کے بعد اس مسودہ قانون کو پارلیمنٹ پھر اسی نکتے سے دوبارہ دیکھ سکے گی جہاں پر 2022 میں اسے چھوڑنا پڑا تھا۔ اس مسودہ کی حتمی منظوری کے لیے ابھی کچھ اہم مراحل باقی ہیں، جن میں خارجہ امور کمیٹی اور پارلیمنٹ کی سکیورٹی کمیٹی میں پیش کر کے اس کی رائے اور منطوری لینے کے علاوہ دوسری اور تیسری خواندگی کر کے پارلیمنٹ سے منظوری لینا ہو گی۔