(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) صیہونی دشمن کی غزہ پر وحشیانہ بمباری میں کا مقصد قتل عام میں اضافہ کرکے مزاحمتی تنظیموں پر دباؤ بڑھانا ہے لیکن یہ کارگر نہیں ہوگا۔
فلسطین کے عسکری حکمت عملی کے ماہر بریگیڈیئر جنرل الیاس حنا نے غزہ کی پٹی پر قابض غیر قانونی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے جاری شدید فضائی بمباری کی عسکری اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس بمباری کا ایک بالواسطہ تعلق قطری دارالحکومت میں جاری مذاکراتی عمل سے ہے۔
غزہ میں قابض صیہونی فوج کی وحشیانہ بمباری اور جارحیت میں شدت کے حوالے سے اپنے تجزیے میں انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کی اس ننگی جارحیت سے فوجی اور اسٹریٹجک سطح پر اسے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکتی اس کا ثبوت گذشتہ 15 ماہ سب کے سامنے ہیں۔
غاصب صیہونی فوج نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ اس نے دو دنوں میں غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس نے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ان مقامات کو نشانہ بنایا ہے جو اسرائیل کی جانب راکٹ داغنے کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔
بریگیڈیئر جنرل حنا نے اس بات کی تصدیق کی کہ فلسطینی مزاحمت، صہیونی جرائم جیسے قتل و غارت، تباہی اور جبری بے گھر کرنے کے بعد میدانی حالات اور جنگی طریقہ کار کے مطابق ہر ہدف کے لیے مخصوص جنگی ذرائع استعمال کرتی ہے۔