(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست انتظامی حراست کی غیر قانونی پالیسی کے تحت خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں فلسطینیوں کو قید میں رکھے ہوئے ہے جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم المیزان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نے اس وقت صہیونی زندانوں میں تقریباً 600 فلسطینیوں کو بغیر کسی باقاعدہ الزام یا ان کے خلاف کسی مقدمے کی کارروائی کے حراست میں لے رکھا ہے، زیر حراست فلسطینیوں میں 45 سے زائد بچے جس میں سے اکثریت اٹھارہ سال سے بھی کم ہیں جبکہ 40 کے قریب خواتین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیلی عدالت میں ایک بار پھر بشریٰ الطویل کی انتظامی حراست میں توسیع کے احکامات جاری
رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے انتظامی حراست کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حساس انٹیلیجنس معلومات ظاہر کیے بغیر اسرائیل کی سلامتی اور غیر قانونی آبادکاروں سمیت صہیونی فوجیوں پر ہونے والے مسلح حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ’انتظامی حراست‘ کا سہارا لیتا ہے تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں یہ نظام بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ ’انتظامی وجوہات کی بنا پر زیر حراست افراد‘ کہلانے والے ایسے قیدیوں کو ’خفیہ شواہد‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے خلاف الزامات تک سے بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ عام طور پر ایسے قیدیوں کو چھ ماہ تک کی قابل تجدید مدت کے لیے حراست میں رکھا جاتا ہے۔ یوں اس مدت میں بار بار کی جانے والی توسیع کے باعث وہ مجموعی طور پر برسوں جیلوں میں رہتے ہیں۔