(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ہلال احمر کے مطابق اسرائیلی فورسز نے طبی ماہرین کو 20خاتون کی زندگی بچانے سے روکے رکھا بعدازاں اسےالخلیل کے ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت دی جہاں فلسطینی لڑکی کو مردہ قرار دےدیا گیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز غرب اردن کے العروب مہاجر کیمپ میں قابض صہیونی فوج کی جانب سےرواں سال 4 ماہ کی صہیونی غیر قانونی جیلوں سے رہائی پانے والی ایک 31 سالہ فلسطینی صحافی لڑکی غفران هارون حامد وراسنہ کوشیریں ابو عاقلہ کی طرح اسرائیلی مظالم منظر عام پر لانے کی پاداش میں بغیر کسی جرم کے گولی مار کر شہید کردیاجس کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینی خوتون صحافی غفران وراسنہ کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بے دردی سے قتل اور ہسپتال کے راستے میں ایمبولینس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا دراصل قابض فوج کی فلسطینیوں کو موت کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔
ایک بیان میں حماس نے کہا فلسطینی عوام کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم اور ان کا خون بہانے کی پالیسی اسرائیلی پالیسی سے دراصل فلسطینیوں کو اپنے مشن پر زیادہ سنجیدگی سے کاربند رہنےکا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس حوصلے کو بروئے کار لا کر وہ آزادی کی اپنی امنگوں کو جلد منزل ہوتا دیکھ سکیں گے۔
غفران هارون حامد وراسنہ 2014 میں الخلیل یونیورسٹی سے گریجوشن کر نے والی ایک ذمہ دار شہری تھیں جو مختلف مقامی ریڈیو اسٹیشنز میں اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہی تھیں، صہیونی فوج نے لڑکی پر براہ راست فائر کیے اور شدید زخمی حالت میں قریب 20 منٹ تک ہلال احمر کے امدادی کارکنان کو اس کے نزدیک جانے نہیں دیا ۔
ہلال احمر کے مطابق اسرائیلی فورسز نے طبی ماہرین کو 20خاتون کی زندگی بچانے سے روکے رکھا بعدازاں اسےالخلیل میں واقع الاھلی ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت دی جہاں فلسطینی لڑکی کو مردہ قرار دےدیا گیا۔
اس حوالے سے قابض اسرائیلی فورسز نے دعویٰ کیا کہ وراسنہ فلسطینی صحافی خاتون صہیونی فوجیوں پر چاقو سے حملہ کر نا چاہتی تھیں اور جیسے ہی وہ اسرائیلی فوجی کے قریب پہنچی فوج کی جانب سے اسے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی۔