فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کی ایک کامیاب ڈیل کر کے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہیں۔ منگل کے روز معاہدے کے تحت قیدیوں کی پہلی قسط کی رہائی کے بعد عرب ماہرین اور تجزیہ نگاروں نےاسے مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی حماس کی شاندار فتح قرار دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق لبنان کے سابق وزیر مواصلات عصام نعمان نے بیروت میں ایک عرب خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "حماس اور اسرائیل کےدرمیان طے پائے قیدیوں کے معاہدے کو ہراعتبار سے حماس کی فتح قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ حماس نے دشمن کے صرف ایک فوجی کےبدلے میں فلسطین کے ایک ہزار ستائیس اسیران کو رہا کرانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسیران کے حجم کے اعتبار سے اس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کا ایک بڑا فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو ہوگا کیونکہ اس معاہدے نے مسلح جدو جہد کے تصور کومزید تقویت دی ہے”۔
ایک سوال کے جواب میں مسٹر نعمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کر کے حماس نے عالمی سطح پر اپنی اہمیت کا بھی احساس دلایا ہے۔ عرب ممالک میں بھی حماس کے نقطہ نظرکو پذیرائی ملی ہے اور عالمی سطح پر مخالفین بھی حماس کے کردار کو سرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک یہودی فوجی کے بدلے میں ایسے قیدیوں کو چھڑا لینا جنہیں صہیونی عدالتوں سے سیکڑوں برس قید کی سزائیں ہو چکی ہیں کوئی معمولی بات نہیں۔ معاہدے کا ایک اہم پہلو ہی یہ ہے کہ اس میں ایسے سیکڑوں اسیروں کو شامل کیا گیا ہے جنہیں کئی کئی مرتبہ عمر قید کی سزاؤں کا سامنا تھا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں عصام نعمان نے کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیل کےساتھ قیدیوں کی ڈیل پر صدر محمود عباس کی جماعت فتح کو قدرے سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس کا تمام تر کریڈٹ یا حماس کو جاتا ہے یا دیگر جنگجو تنظیموں کو اس کافائدہ پہنچ رہا ہے۔ سیاسی اعتبارسے بھی یہ حماس ہی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔