فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی پر مسلط گذشتہ کئی سال سے جاری معاشی ناکہ بندی ختم کرے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بعد غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے تسلسل کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ”مرکز برائے حقوق اسیران” نے ایک بیان میں کہا ہےکہ اسرائیل اس سے قبل یہ جواز پیش کرتا رہا ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اس لیے کی گئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس کے ایک فوجی کو گرفتار کر رکھا ہے، اب چونکہ صہیونی فوجی کو رہا کر دیا گیا ہے، لہٰذا اسرائیل کی یہ دلیل بھی ختم ہو گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مصراور جرمنی کی ثالثی کے تحت گیلاد شالیت کی رہائی اوراس کے بدلے میں ایک ہزار ستائیس فلسطینی اسیران اور اسیرات کی رہائی نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا بہترین موقع دیا ہے۔ اسرائیل کو اب غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
فلسطین میں انسانی حقوق کی بعض دیگر تنظیموں نے بھی غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے فوری خاتمے پر زور دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطین میں پانچ سال سے جاری معاشی ناکہ بندی نے شہریوں کو شدید مشکلات سے دوچارکیا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہےغزہ کی پٹی کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے لیے اب مصر اور دیگر ملکوں کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ پانچ سال سے معاشی گرداب کا شکار شہریوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو سکے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر سنہ2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں مزاحمت تنظیم "حماس” کی کامیابی کے بعد شہر کے تمام بحری اور بری راستے بند کر دیے تھے۔ پانچ سال کے اس عرصے کے دوران شہریوں کو معاشی ناکہ بندی کے دوران سنگین نوعیت کی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔