اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ دو سال قبل ترکی سے امدادی سامان لےکرغزہ جانے والے بحری جہاز”فریڈم فلوٹیلا” پر حملے کے لیے اسرائیلی فوج نے پیشگی منصوبہ بندی کی تھی۔
عبرانی زبان کے موقر اخبار”اسرائیل ھیوم” نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مئی سنہ 2010ء کوترکی اور کئی دوسرے ممالک کے مشترکہ امدادی مشن پرحملے کے لیے اسرائیلی فوج نے باضابطہ طورپر تیاری کی تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہ فوج نے اپنے زیرانتظام اسپتالوں اور کئی دوسری سرکاری اسپتالوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی ہنگامی حالت کی تیاری میں رہیں کیونکہ فوج امدادی جہازوں پرحملہ کرے گی اور اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں رضاکار زخمی ہوسکتے ہیں، جنہیں لا محالہ فوری طورپر انہی اسپتالوں میں منتقل کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ جہازوں میں چھ سو انسانی حقوق کے کارکن اور عالمی سیاسی کارکن شامل تھے۔
اخبارلکھتا ہے کہ صہیونی فوج نے بیت تکفا کے مقام پر” بلتسون” استپال کی انتظامیہ کو بتایا گیا تھا کہ وہ زخمیوں کو اپنے ہاں علاج کے لیے ہرقسم کی سہولت فراہم کرے، علاج کے عوض اسپتال کو تمام اخراجات فراہم کیے جائیں گے، تاہم صہیونی حکومت اور فوج کی طرف سے اسپتال میں زخمی کارکنوں کو علاج کے عوض کسی قسم کی معاونت نہیں کی گئی، جس پرصہیونی اسپتال کی انتظامیہ نے حکومت کے خلاف سپریم میں ایک دعویٰ دائر کیا ہے۔ حکومت کے خلاف دائر مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت سنہ 2010ء میں فریڈم فلوٹیلا حملے کے زخمی کارکنوں کے علاج پرآنے والے اخراجات انہیں ادا کرے۔ جو کہ آٹھ ہزار ڈالرز سے زیادہ تھی۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق صہیونی وزارت دفاع کی جانب سے ایسے کئی پرائیویٹ اسپتالوں کو زخمیوں کے علاج معالجے پراٹھنے والے اخراجات ادا کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ مئی سنہ 2010ء کو عالمی بحری جہازوں کا ایک قافلہ فلسطینی محصور شہرغزہ کی پٹی کی جانب امدادی سامان لے کر جا رہا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوز نے کھلے سمندرمیں داخل ہوکرامدادی جہازوں پرحملہ کردیا تھا۔ حملے میں ترکی کے نو شہری شہید اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیل نے چھ سو افراد کو یرغمال بنا کرامدادی سامان لوٹ لیا تھا۔ بعد ازاں لوٹے گئے سامان کا کچھ حصہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذرریعے غزہ کی پٹی میں تقسیم کیا گیا تھا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

