(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مشاہد حسین سید نے سینیٹ میں اپنی تقریرکجے دوران مقبوضہ فلسطین پر صیہونی ریاست کے سنگین جرائم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین سے پاکستان کا تعلق بہت گہرا ہے یہ ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے ، پاکستان اپنے قیام سے پہلے بھی فلسطین پر اپنا واضح مؤقف رکھتا تھا اسرائیل ایک غیرقانونی صیہونی ریاست ہے پاکستان اسرائیل کو کبھی بھی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرسکتا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کیسی انفرادی شخصیت کی جانب سے مرتب نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ پالیسی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ہم وہ واحد غیر عرب ملک ہیں جس نے اسرائیل کے خلاف دو جنگوں میں براہ راست حصہ لیا ہے 1967 میں اردن کی جانب سے جبکہ دوسری 1973 میں شام کی طرف سے پاکستان تو اسرائیل کے خلاف اس حد تک گیا ہے جتنا کوئی دوسرا ملک نہیں گیا ہمارے پائیلٹوں نے اسرائیل کے جہازوں کو گرایا ہے اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناں نے 1940 میں دو قراردادیں پیش کی تھی جس میں ایک قرار داد پاکستان تھی دوسری قرارداد فلسطین تھی پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے بڑی قربانیاں ہیں ہم اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
انھوں نے فلسطین میں حالیہ اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور اس کے نتیجےمیں شہید ہونے والے آٹھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ فلسطین کی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے ، ہمیں یہاں اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہےکہ 7 اکتوبر کا اواقع پیش ہی کیوں آیا
انھوں نے کہا کہ یہ کوئی ایک دن کا ردعمل نہیں ہے ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو کو پانچ عشروں سے بھی زیادہ ظلم کا شکار بنایا ہوا ہے ،غزہ کے محصور عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے یہ سب اس کا ردعمل ہے۔
انھوں نے غزہ کی مزاحمتی تحریک حما س کو مغربی دنیا اور امریکہ کی جانب سے دہشتگردی تنظیم قرار دینے پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ حماس فلسطینی شہریوں کی نمائندہ جماعت ہے جس نے جنوری 2006 میں بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔
انھوں نے نشاہندی کی کہ انتخابات میں حماس کی کامیابی پر امریکی سابق صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ یہ مشرقی وسطیٰ میں ہونے والے سب سے شفاف انتخابات ہیں جس کے بعد حماس غزہ کے شہریوں کی جانب سے ایک منتخب سیاسی جماعت کے طورپر منظر عام پر آئی اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے جون 2006 میں حماس کی جانب سے وزیر خارجہ محمود زھار کا استقبال کیا اور انھوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ تمام تاریخ بتاتی ہے کہ حماس ایک سیاسی جماعت ہے جس کو غزہ کے لوگوں نے اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کیا۔
انھوں نے واضح کیا کہ جو موقف پاکستان کا مقبوضہ کشمیر پر ہے وہی موقف مقبوضہ فلسطین پر ہے اگر ہم فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرتےہیں تو یہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے دونوں علاقوں کا مسئلہ ایک سا ہے ایک مشرقی وسطیٰ میں ہے تو دوسرا جنوبی ایشیا میں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنے درینہ موقف کو بھی خیر آباد کہہ دے اور یہ ہم کر نہیں سکتے یہ ہماری قومی پالیسی ہے فلسطین ہمارے لیئے بہت مقدس ہے تو کشمیر بھی ہمارے لیئے بہت اہم ہے۔