(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیل کے سیاسی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہوچکی ہے، حالیہ انتخابات کے نتیجے میں "فاشسٹوں کا ایک گروہ” ابھر کر سامنے آیا ہے۔
غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے عبرانی چینل 13 کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسرائیل کی حالیہ سیاسی صورتحال اور کرپشن کے سنگین الزامات پر حکومت سے ہٹائے جانے والے وزیراعظم نیتن یاھوں کی ایک بار پھر وزارت عظمیٰ پر کامیابی کو ملک کی تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کنیسٹ کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے پریشان اور مایوس ہیں۔
اولمرٹ نے نتائج کو "اسرائیل کے لیے تباہ کن اور سنگین درجے کے خطرناک قرار دیادیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی صیہونی حکومت کے موقف اور اقدامات جمہوریت کو غیر مستحکم کریں گے وہ "فاشسٹ گروپ کے ہر اس شخص کے خلاف ہیں جو ان سے اختلاف کرتا ہے، خواہ عرب، بائیں بازو یا دیگر” کوئی بھی ہو۔
سابق وزیراعظم نے نیتن یاھو پر سخت تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو ایک کمزور آدمی ہیں اور وہ بین گویر اور ان کے دوستوں کو مایوس کریں گے کیونکہ نیتن یاہو میں ہمت اور قائدانہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس نہیں کرسکتے۔
انہوں نے "بین گویر” کے اقدامات خاص طور پر فلسطینیوں کے خلاف اور پستول کے ساتھ گھومنے اور اسے عوامی مقامات پر گھسیٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حرکتیں اسرائیلیوں کے چہروں پرپھٹ جائیں گی۔
"اسرائیل کی نئی حکومت کے دور میں متوقع امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اولمرٹ نے کہا کہ نیتن یاہو وائٹ ہاؤس کے ساتھ براہ راست تنازع میں داخل ہونے سے گریز کرنا چاہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ٹھگ گینگ سے لڑنے کی ضرورت ہے جو اس کی حکومت کا ایک بہت اہم حصہ بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت، ہمت اور عزم ہے؟”۔