(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی دراندازی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل وہی جابرانہ رویہ اپنا رہا ہے جو اس نے غزہ میں کیا تھا۔
مقبوضہ فلسطین کےمغربی کنارے میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی نام نہاد فوج اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گذشتہ ایک ہفتے سے جاری دہشتگردی میں اب تک 12 سے زائد فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں ، مغربی کنارے کے شہر جنین اور طولکرم کی کشیدہ صورتحال پر قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران فلسطین نیشنل انیشیٹوپارٹی کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ برغوثی نے فلسطینی آبادی کو درپیش خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے جوکچھ جنین اور طولکرم میں ہو اسے فلسطین کے تمام خطوں میں دہرایا جا سکتا ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ ان دھاووں کا مقصد غرب اردن کوصہیونی ریاست میں ضم کرنے کی گہری صہیونی سازشوں کوآگے بڑھانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی دراندازی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل وہی جابرانہ رویہ اپنا رہا ہے جو اس نے غزہ میں کیا تھا۔ صہیونی ریاست ایک بڑے اور خوفناک ہدف کی طرف بڑھ رہی ہے جو فلسطینی قوم کے لیے یہ انتہائی خطرناک ہے، شائد نکبہ کے بعد غرب اردن کے عوام کے لیےنکبہ سے بڑا خطرہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ قابض صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا مقصد نہ صرف غزہ کو محکوم بنانا ہے بلکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے تمام امکانات کو ختم کرنا ہے، اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف صیہونی حکومت ہی نہیں کر رہی ہے بلکہ لفظی معنی میں ایک فاشسٹ حکومت کر رہی ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی جرم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کرتی۔
برغوثی نے نیتن یاہو کی حوصلہ افزائی کو تین عوامل سے منسوب کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف تین عوام صہیونی ریاست کے لیے مدد گار بن رہے ہیں۔ پہلا محدود بین الاقوامی ردعمل اور بعض بین الاقوامی فریقوں کا اسرائیل کے جرائم میں ملوث ہونا، دوسرا سرکاری عرب اورمسلمان ممالک کا کمزور موقف اور بعض حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ اور درپردہ تعلقات اور تیسرا اندرونی حالات کا تسلسل ہے۔ فلسطینی اس وقت دھڑوں میں تقسیم ہیں اور یہ تقسیم فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافے اور صہیونی ریاست کے لیے آسانی کا ذریعہ بن رہی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج فلسطینیوں کے پاس اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی سرزمین پر ثابت قدم رہنے اور ڈٹے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس مزاحمت ہی واحد ہتھیار ہے۔ اس مزاحمت نےآج مسئلہ فلسطین کو پوری دنیا میں صف اول پر لا کھڑا کیا ہے۔ صہیونی ریاست کے عالمی بائیکاٹ میں اضافہ کیا ہے اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔