(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) صہیونزم مسئلہ فلسطین کی اصل جڑ ہے مغربی حکومتیں اور ان کے ایجنٹ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور وہ اسلام کو دوسرے مذاہب کا دشمن بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام کراچی کے مقامی ہوٹل میں عالمی فلسطین کانفرنس بعنوان ”مسئلہ فلسطین کا پر امن اور منصفانہ حل“ کا انعقاد بدھ کے روز کیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف ممالک بشمول انڈونیشیا، ملائیشیاء، ایران، روس، مراکش، یمن، اردن کے قونصل جنرل صاحبان بشمول ڈاکٹر جون، حرمن حردیانتا، حسن نوریان، مرزا اشتیاق بیگ، مرزا اختیار بیگ، سٹانسلووسمیت سیاسی و مذہبی شخصیات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور صوبائی وزیر برائے خواتین شہلا رضا مہمان خصوصی تھیں۔
کانفرنس میں وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے انسانی حقوق سریندر ولاسی، معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر (ر) حارث نواز، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی نائب چیئر مین علامہ احمد اقبال رضوی اورفلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابرابو مریم نے خطاب کیا۔ کانفرنس کی میزبانی کے فرائض معروف صحافی و اینکر پرسن اویس ربانی نے انجام دئیے۔
کانفرنس کا ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ مسئلہ فلسطین صہیونزم کے تسلط کا نتیجہ ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ صہیونزم اصل میں مسئلہ کی جڑ ہے۔ ڈاکٹر صابر ابو مریم کاکہنا تھا کہ مغربی حکومتیں اور ان کے ایجنٹ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور وہ اسلام کو دوسرے مذاہب کا دشمن بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور فلسطین کے مسئلہ پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم یہودیوں کے دشمن نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ کے خلاف ہیں جو برطانوی و امریکی استعمار نے فلسطین کے خلاف کیا اور فلسطینی زمین پر اسرائیل کے وجود کو جنم دیا ہے۔لہذا اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے سامنے ایک پر امن اور منصفانہ حل موجو دہے کہ فلسطینی عوام کو فلسطین واپس لایا جائے اور فلسطین کے باشندے جن میں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب شامل ہیں ایک ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کی قسمت اور بعد میں آنے والے باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برداری اگر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس سے زیادہ پر امن اور منصفانہ حل نہیں ہو سکتا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی صوبائی وزیر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کو کبھی پاکستان تسلیم نہیں کریگا، شہید ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کا موقف واضح ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے، اسرائیل کے ظلم و ستم پوری دنیا پر عیاں ہیں، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطین پر ظلم و بربریت پر خاموش ہیں۔
کانفرنس سے یمن کے اعزازی قونصل مرزا اختیار بیگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے یہ اچھا وقت ہے کہ ہم ایک بھر پور قرارداد کے ذریعہ فلسطین کے عوام کی حمایت کریں۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے پر زور دیتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق بین الاقوامی نیٹ ورکنگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پر امن حل کی حمایت کرتے ہیں کہ جس کا بنیادی محور فلسطینی عوام ہیں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کاکہنا تھا کہ فلسطین و کشمیر کے عوام پر ہونے والے ظلم و ستم پر عالمی قوتیں خاموش ہیں، سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فلسطین و کشمیر کے مسئلے پر آواز بلند کرنا ہوگی۔ان کاکہنا تھا کہ عالمی برادری کو فلسطینی عوام کا حق تسلیم کرنا ہوگا ورنہ خطے سمیت دنیا میں امن کا قیام نا ممکن ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ اقوام متحدہ اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام اقوام کو فلسطین کے منصفانہ حل کے لئے متحد کریں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کریں۔ انہوں نے قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ مودودی او ر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسطین حمایت کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج فلسطینی کاز کیلئے حکومتی سطح پر اسی موقف کی ضرورت ہے جو بانیان پاکستان نے اپنایا تھا۔
عالمی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے قونصل جنرل ڈاکٹر جون نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم انسانیت سوز ہیں۔ آج مسئلہ فلسطین عالمی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ انڈونیشیا فلسطین کی آزاد اور جمہوری ریاست کے قیام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
کانفرنس سے ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونی ریاست اسرائیل کو مسلم امہ کے قلب میں ایک کینسر قرار دیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ جب تک یہ کینسر ختم نہیں ہوتا اصل مرض کا علاج نہیں ہو پائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی مزاحمت عنقریب کامیاب ہو گی اور فلسطین کی آزادی یقینی ہے۔ انہوں نے فلسطین کے منصفانہ حل کے لئے کوششوں کی قدر دانی کی اور کہا کہ فلسطین کے پر امن اور منصفانہ حل کے لئے ضروری ہے کہ متحد اور مشترک کوشش کی جائے۔
عالمی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فردوس شمیم کاکہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ہم سب کواپنا پنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان کاکہنا تھا کہ اگر آج ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لئے نہیں اٹھے تو کل کوئی ہماری مدد کے لئے نہیں اٹھے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین مں صفانہ حل کا متقاضی ہے جو فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئیے، انہوں نے فلسطین پرایک سو سالہ مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر انسان تک مسئلہ فلسطین کے بارے میں معلومات پہنچائیں اور بتائیں کہ اس مسئلہ کو پیداکرنے والے برطانوی استعمار ہے۔مسئلہ فلسطین ایک سنجیدہ اور انسانی مسئلہ ہے جس کا منصفانہ حل ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ مسلم امہ اپنے اتحادکے ساتھ اٹھے اور مسئلہ فلسطین سمیت کشمیر جیسے مسائل کو حل کرنے کے لئے قدم بڑھائے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مراکش کے اعزازی قونصل مرزا اشتیاق بیگ کاکہنا تھا کہ عالمی فلسطین کانفرنس یقینا مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مراکش فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے اور قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران مراکش کے کھلاڑیوں نے اپنی فتح کا جشن فلسطینی جھنڈے لہرا کر منایا ہے۔
ملائیشیاء کے قونصل جنرل ہرمن ہردیانتا نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملائیشیا ء فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور ہم کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملائیشیا اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہم ہمیشہ فلسطینی عوام کی مدد کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ملائیشیا حکومت کی جانب سے فلسطینی طلباء کے لئے اسکالر شپ پروگرام سمیت متعدد امدادی سرگرمیوں سے متعلق تفصلات سے بھی آگاہ کیا۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار کابریگیڈئر حارث نواز کاکہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ہم سب کو یکجا ہونا پڑے گا اور ہمیں بھرپور قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا اور اس کام کے لئے تمام ستاون اسلامی ممالک کو ایک مضبوط اور طاقتور موثر پلیٹ فارم تشکیل دینا ہو گا۔اانہوں نے کہا کہ اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا افغانستان اور عراق میں آنے کا مقصد یہی تھ اکہ خطے کو کنٹرول کیا جائے اور ایران پر بھی نظر رکھی جائے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں انہوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے کردار کو فعال بنانے پر زور دیا اور کہا کہ اگر او آئی سی مشترکہ کوششیں کرے تو ہم فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
فلسطین کانفرنس سے علامہ احمد اقبال رضوی کا خطاب میں کہنا تھا کہ ملکی عوام اپنے مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرنا بھارت کے کشمیر پر تسلط کو تسلیم کرنا ہے، مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے عرب ممالک کا کردار مجرمانہ ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک نے امت مسلمہ سے غداری کی، فلسطینی مزاحمت کی ہر سطح پر حمایت کا اعلان کرتے ہیں، پاکستانی حکومت فلسطینی ایام یوم نکبہ اور یوم القدس کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کرے، مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف امت مسلمہ یکجا ہیں، گریٹر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے، اسرائیل تنہائی کا شکار یے اور اپنے گرد دیواریں کھٹری کر چکا ہے۔ پروگرام میں فلسطین فاونڈیشن پاکستان کی سرپرست کمیٹی کے اراکین رہنما محفوظ یار خان، مولانا باقر عباس زیدی، مولانا قاضی احمد نورانی، مسلم پرویز،
یونس بونیری، اسرار عباسی سمیت ہندو رہنما منوج چوہان،جماعت اسلامی کے یونس بارائی، پی ٹی وی اینکر پرسن شازیہ خان،معروف معیشت دان ڈاکٹر طارق کلیم، معروف ادا کار ایوب کھوسو،کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر سلیم، جنرل سیکرٹری وقار عباسی، روزنامہ نئی بات کے چیف ایڈیٹر مقصود یوسفی،روزنامہ جنگ کے صحافی محمد عسکری، علی کامران، وائس آف کراچی کے چیف ایڈیٹر فرحان چوہان، ڈاکٹر صدف مصطفی، علی واصف، سمیت مختلف یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔