(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) صیہونی ریاست میں فلسطینیوں کے خلاف عمر قید کا مطلب تمام عمر کی قید ہے اور عمر قید سے زیادہ کا مطلب ہے سزائے موت جس میں اکثر موت کے بعد بھی قیدی کی لاش کو صیہونی حکام اپنی تحویل میں رکھتے ہیں یا خفیہ طورپر نامعلوم مقامات پر دفن کرکے لواحقین کو آخری دیدار سے محروم رکھتے ہوئے ان کی قبر کی بھی کوئی اطلاع نہیں دیتے۔
حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے چالیس سال سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید کیےگئے فلسطینی کریم یونس کو رہا کیا تو اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے۔
سنہ 1983ء کے وسط میں اسرائیلی حکام نے کریم اور ان کے کزن ماہرکو فتح تحریک سے تعلق رکھنے، ایک اسرائیلی فوجی کو اغوا کرنے اور پھر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ایک اور فلسطینی مار یونس بھی چالیس سال سےپابند سلاسل رہے اور انہیں بھی حال ہی میں رہائی ملی ہے۔ ان چالیس برسوں میں مقبوضہ فلسطین میں کئی حکومتیں آئیں اور کئی چلی گئیں عالمی سطح پر ناقابل فراموش تبدیلیاں آئیں لیکن اسرائیلی مظالم کا شکار ان فلسطینی قیدیوں کی قسمت کو نا کوئی عالمی ادارہ بدل سکا اور نا ہی کوئی حکومت ۔
اس وقت اسرائیلی زندانوں میں 552 سے زائد فلسطینی قید ہیں جن کو اسرائیلی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں سے اکثریت پر تاحال کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا ہے تاہم شک کی بنیاد پر یہ فلسطینی صیہونی زندانوں میں قید ہیں۔
صیہونی ریاست میں فلسطینیوں کے خلاف عمر قید کا مطلب تاعمر قید ہے اور موت کے بعد بھی قیدی کی لاش کو جیل ہی میں رہنا ہے۔ اس کی مثال چند ہفتے قبل جیل میں فوت ہونے والے ناصر ابو حمید کی لی جا سکتی ہے جو جیل میں فوت ہونے کے بعد بھی قید میں ہے اور اس کا جسد خاکی اس کے ورثا کو نہیں دیا گیا۔