(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نام نہاد فوج کی نسل کشی کی کارروائیوں کے دوران 1,091 فلسطینی شیرخوار بچے شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 238 وہ بچے ہیں جو اس جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور اس کے آغاز کے بعد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس بات کا انکشاف غزہ میں سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے کیا۔ الثوابتہ نے اس جارحیت کو "واضح جنگی جرم” قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے دوران غزہ میں شہید ہونے والوں میں تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ میں غزہ کے عوام کی "خوفناک حقیقت” کا تذکرہ کیا ہے، جو 7 اکتوبر سے مسلسل حملوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس دوران، عالمی سطح پر اسرائیل کی جارحیت پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے، لیکن اسرائیل نے عالمی دباؤ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ کو جاری رکھا ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام نے بین الاقوامی برادری کو بے بس اور مایوس کر دیا ہے، خصوصاً جب وہ نسل کشی کی کارروائیوں اور انسانی بحران کی شدت کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو بھی نظرانداز کر رہا ہے۔
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو مکمل حمایت حاصل ہے، جس کے باعث 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ میں 154,000 سے زیادہ فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ 10,000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں، اور غزہ میں قحط اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیل چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس صورت حال کی سنگینی کے باوجود، اسرائیل کی طرف سے جنگی کارروائیوں کا تسلسل غزہ کی عوام کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔