(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ماتحت عدالت کا فیصلہ قومی سلامتی اورعوامی تحفظ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہےاور یہودیوں کومسلمانوں کے حصے میں تلمودی رسوم کی اجازت دینا کھلی خانہ جنگی کے برابر ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ 4 روز کے دوران قابض اسرائیلی ریاست میں صہیونی شر انگیزوں کی حمایت میں اسرئیل کی ایک ماتحت عدالت نے مقبوضہ بیت المقدس میں قبلہ اول کے مسلمانوں کیلیے مخصوص کیے گئے حصے میں صہیونی آبادکاروں کو یہودی عبادت اور تلمودی رسومات کے ساتھ ساتھ صحن مسجد اقصیٰ میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دے کر فلسطینیوں اور آبادکاروں کے درمیان ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا تھا جس کے خلاف اسلامی تحریک مزاحمت حماس نےواضح الفاظ میں اسرائیلی حکام کو خبردارکیا تھا کہ وہ یہودی آباد کاروں کو مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کرنے اور اس کے صحنوں میں تلمودی رسومات ادا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی اور یہ کہ یہ مقدس مقام صرف مسلم قوم کا ہےجس کے بعد صہیونی ریاست کی اعلی ٰ عدالت کی جانب سے پانچ دنوں کے اندر ایک نیا فیصلہ آیا ہے جس کے مطابق اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنی ہی ماتحت عدالت کا فیصلہ قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے خلاف قرار دیتے ہوئے پچھلی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ماتحت عدالت کا فیصلہ قومی سلامتی اورعوامی تحفظ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہےاور یہودیوں کومسجد کے مسلمانوں کیلیے مختص حصے میں تلمودی رسوم کی اجازت دینا کھلی خانہ جنگی کے برابر ہوگا۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے عدالتی فیصلے کےخلاف فلسطینی وکلاء کی جانب سےدو روز قبل ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی جس میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں تلمودی رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے فلسطینیوں کے خلاف صہیونی آبادکاروں کے حق میں اسرائیلی عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی اور آبادکاروں کو فلسطینی حصے میں آمد اور یہودی عبادت کے فیصلے کی تبدیلی پر زور دیا گیا تھا۔