(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)اسرائیلی عدالت کےمطابق صہیونی آبادکار جو مسجد اقصیٰ میں گھس کر فلسطینیوں پر مذہبی اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں اور اسرائیلی فوج کی سرپرستی میں ان پر تشدد کرتے ہیں اب مسجد کے صحنوں میں آزادانہ گھوم پھر سکیں گے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیل کی فوجی عدالت کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے قبلہ اول میں قابض صہیونی آبادکاروں کو مسجد اقصیٰ کے ان حصوں میں یہودی تلمودی رسومات کی ادائیگی کی اجازت دے دی گئی ہے جو اسرائیلی حکومت اور اردن کے درمیان ایک دیرینہ معاہدے کےتحت صرف مسلمانوں کے لیے مختص تھااوران مقامات پرحد بندی کے مطابق مسلمان مسجد کے امور کا انتظام سنبھالتے اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔
قابض ریاست کی اسرائیلی عدالت نے آباد کاروں کو بے دخل کرنے کے فیصلے کے خلاف صہیونی "حوننو” تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی اپیل قبول کرتے ہوئےیہودیوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت دی ہے یہ اسرائیل کی بدنام زمانہ تنظیم ہے جو فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملے کرنے والے یہودی انتہا پسندوں کا دفاع کرتی ہے۔
صہیونی ریاست کی نام نہاد "مجسٹریٹ کورٹ” نے اردن کے معاہدے کے تحت صہیونی آباد کاروں پران مقامات میں داخل ہونے یا عبادت کرنے پر عائد پابندیوں کو ختم کردیااور عدالت کے فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں گھس کر فلسطینیوں پر مذہبی اشتعال انگیز نعرے لگانے والے ان پر تشدد کر نے والے سب ہی آبادکار مسجد کے صحنوں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں اور یہاں یہودی مذہب کے مطابق نماز ادا کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں ، عیسائی اور یہودی مذہب کے پیروکاروں کیلیے یکساں مذہبی اہمیت کی حامل ہےتاہم یہاں آنے والے ان مذاہب کے افراد میں روزانہ کی بنیاد پر تصادم کے خاتمے کیلیے اردن اور قابض ریاست اسرائیل کے مابین حد بندی معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق صہیونی آبادکاروں کیلیے مسجد کا ایک حصہ مختص کردیا گیا جبکہ دوسرا حصہ مسلمانوں کی عبادت کیلیے محدود کر دیا گیاان میں القدس کے پرانے شہر سے شہر بدری کے احکامات شامل ہیں یہ پابندی صہیونی آبادکاروں پر اس وقت لگی تھی جب انہوں نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں تلمودی رسومات ادا کر نی شروع کی تھیں۔