فلسطین(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)اسرائیل کا علاقے میں چونکہ کوئی سیاسی مقام نہیں ہے، حکومت کے لیے زمین بھی اس کے پاس پہلے تو غصبی ہے اور جو ہے وہ بھی وسعت کے اعتبار سے بہت کم ہے اور ہمیشہ جراحت پذیر اور مشکلات کا شکار ہے اس وجہ سے اسرائیل اپنی سکیورٹی اور سالمیت کو پہلی ترجیح دیتا ہے۔ اس کے سیاسی انحصار، بایو ٹکنالوجی اور مزاحمتی گروہوں کی نو حاصل توانائی کی وجہ سے اسرائیل کے لیے فوجی نفوذ کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ مذہبی اعتبار سے بھی یہودیوں کے نسل پرست ہونے کی بنا پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ البتہ جاسوسی کے راستے سے اسرائیل دوسرے ملکوں میں نفوذ پیدا کرتا ہے جو تقریبا تمام ملکوں کا رائج طریقہ ہے۔(۱)
ان مشکلات کے پیش نظر جن سے اسرائیل دوچار ہے اس کے لیے واحد راہ حل اپنی اقتصادی اور انرجی ڈپلومیسی کو تقویت پہنچانا ہے۔ صہیونی ریاست امریکہ جیسی طاقت کی پشت پناہی میں، صنعتی اور علمی بنیادوں کو مضبوط کر کے ان ممالک کی تلاش میں جاتا ہے جن کے نزدیک اسرائیل کا ناجائز ریاست ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ در حقیقت اس طریقے سے اسرائیل سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی معیشت کو رونق دیتا اور اپنے لیے اقتصادی اور سیاسی حامی تلاش کرتا ہے۔
اسرائیل کافی عرصے تک اپنی حاکمیت کے تحفظ کے لیے امریکہ اور دیگر ایٹمی طاقتوں کی حمایت کا محتاج ہے۔ دوسری طرف سے صہیونی ریاست خام تیل اور گیس کی کمی کا شکار ہے اور ان ذخائر کی نسبت اس کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کے پاس تنہا راستہ ’انرجی ڈیپلومیسی‘ (Energy diplomacy) کی تقویت ہے۔
خام تیل اور گیس کے ذخائر اس قدر آج دنیا والوں کے لیے اہم ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے ریڈ لائن شمار ہوتی ہے اور وہ اس کی وجہ سے تمام اجتماعی سیاستوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپی یونین نے روس کے ساتھ گیس کی وابستگی کو کم کرنے کا ارادہ کیا تو جرمنی نے کھلے عام اس کی مخالفت کی۔
اسرائیل میں انرجی ڈپلومیسی(Energy diplomacy)
اسرائیل میں خام تیل اور گیس کے ذخائر بہت ہی محدود ہیں۔ خام تیل کا ایکسپورٹ اس وقت روک دیا گیا ہے لیکن گیس کا ایکسپورٹ ابھی جاری ہے۔ اس ریاست میں توانائی کا استعمال اور اس کی ڈیمانڈ، پیداوار سے کہیں زیادہ ہے لہذا اسرائیل مجبور ہے کہ توانائی کے ذخائر کو امپورٹ کرے۔ در حقیقت قومی سلامتی کا مسئلہ اور توانائی کا فقدان اس بات کا باعث بنا ہے کہ اسرائیل انرجی ڈپلومیسی کو فعال کرے اور اسے حیاتی بنائے۔ اسی وجہ سے اس رژیم نے خام تیل اور گیس کے میدان میں اپنی سرگرمیوں کو مشرق وسطیٰ کے تین علاقوں قطر، بحیرہ روم (قبرص اور یونان) اور یوروشیا (روس، قزاقستان اور آذربائیجان) میں شروع کر دیا ہے۔ اندرونی توانائی کی پیداوار کے علاوہ ان سرگرمیوں کی کچھ اہم وجوہات ہیں؛ ان میں سے ایک وجہ اسرائیل کا تنہائی سے خود کو نکالنا ہے اور عالمی مارکیٹ میں داخلے کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ البتہ اس چیز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ڈپلومیسی اقتصادی نفوذ کے بغیر محال ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے گیس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ایک اہم ملک آذربائیجان ہے اس کی وجہ سے آج سوول( (sovil سے مربوط کمپنیاں آذربائیجان میں موجود ہیں۔(۲)
حواشی
۱ – جغرافیای سیاسی اسرائیل، حمیدی نیا، حسین، علوم سیاسی: مطالعات منطقه ای، زمستان۱۳۹۰، شماره ۴۲و۴۳، ص ۴۲-۱۷٫
۲- دیپلماسی انرژی اسرائیل: مبانی و اهداف منطقه ای، نیاکوئی، سید امیر، کریمی پور، داود، فصلنامه علوم سیاسی: تحقیقات سیاسی و بین المللی، بهار۹۴، شماره ۲۲، ص ۵۸-۲۷٫
۳- استراتژی اسرائیل در منطقه خاورمیانه و تاثیرات آن بر جمهوری اسلامی ایران، ملکی، محمد رضا، فصلنامه علوم سیاسی، تابستان۸۶، شماره۶، ص ۶۶-۲۳٫