(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) محکمہ خارجہ میں لوگ ڈر کے مارے غزہ کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں، محکمہ خارجہ غزہ پر جن نکات پر بات کا کہتا تھا وہ اشتعال انگیز تھے، وہ نکات فلسطینیوں کو یکسر نظرانداز کرتے تھے، ان میں فلسطینیوں کی حالت زار کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔
تقریبادودہائیوں تک امریکہ محکمہ خارجہ میں خدمات انجام دینے والی محکمہ کی عربی زبان کی ترجمان ہالا غاریت نے امریکی اخبار کوانٹرویودیتےہوئے اچانک سے بائیڈن انتظامیہ چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ کے معاملے پر امریکاکی پالیسزسےشدیداختلافرکھتی ہیں اوروہ امریکہ سے کسی کے مزید نفرت کرنے کی وجہ نہیں بننا چاہتی۔
انھوں نےکہاکہاپنے 18 برس کے کیرئیر میں ہمیشہ پالیسی پر بات ہوتے دیکھی تھی کہ امریکا کیا غلط کر رہا ہے اور کیا درست مگر حیران کن اور منجمد کرنے والی یہ صورتحال پہلی مرتبہ غزہ تنازعے پر پیدا ہوئی تھی اس لیے اکتوبر سے غزہ صورتحال پر انٹرویو دینا بند کردیے تھے۔
ہالا رغاریت نے بتایا کہ محکمہ خارجہ میں لوگ ڈر کے مارے غزہ کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ محکمہ خارجہ غزہ پر جن نکات پر بات کا کہتا تھا وہ اشتعال انگیز تھے، وہ نکات فلسطینیوں کو یکسر نظرانداز کرتے تھے، ان میں فلسطینیوں کی حالت زار کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔
ہالا غاریت نے کہا کہ اگر وہ محکمہ خارجہ کے نکات پر بات کرتیں تو لوگ ٹی وی پر جوتا مارنے کا سوچتے، امریکی پرچم جلانے کا سوچتے اور امریکی فوج پر راکٹ مارنے کا سوچتے۔انہوں نے کہا کہ انہیں ڈر ہے یتیم فلسطینی بچے کل کو ہتھیار اٹھا کر بدلا لینے نہ کھڑے ہو جائیں کیونکہ امریکی پالیسی پوری نسل کو انتقام پر اکسا رہی ہے۔ہالا نے کہا کہ بطور انسان، بطور ایک ماں یہ کیسے ممکن ہے، مردہ فلسطینی بچوں کی ویڈیو آپ پر اثر نہ ڈالیں؟
انہوں نے کہا کہ یہ المناک تھا کہ فلسطینی بچوں کو مارنے والے بم ہمارے تھے اور زیادہ المناک یہ تھا کہ اموات کے باوجود ہم مزید اسلحہ اسرائیل بھیج رہے تھے۔ہالا نے اس معاملے پر امریکی پالیسی کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اسلحہ کی نہیں سفارت کاری کی ضرورت ہے۔