(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) ہماری سیاسی قیادت میں بصیرت کا فقدان ہے غزہ جنگ میں وہ فیصلے کئے جارہے ہیں جو اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرناک ہیں۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی سب سے بڑی تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فورم فار فلسطین اسٹڈیز کے سربراہ اور پالیسی اور حکمت عملی کے ایک سینئر محقق ڈاکٹر مائیکل ملسٹین نے گذشتہ روز اسرائیلی چینل 13 پر ایران میں اسماعیل ھنیہ کی شہادت اور اس کے بعد کی صورتحال پر اپنے تجزئے میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگی اقدامات براہ راست یحییٰ السنوار دیکھ رہے ہیں مذاکرات میں اسماعیل ھنیہ اور ان کی سیاسی لیڈر شپ کا بڑا کردار ہے تاہم جنگی حکمت عملی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے وہ السنوار ہیں جو اپنے ساتھوں اور کمانڈروں کے ساتھ جنگی حکمت عملی کرتے ہیں اور براہ راست فیصلے لیتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہے کہ ایران میں اسماعیل ھنیہ کو نشانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی اس اقدام نے قیدیوں کی رہائی کے مذاکرات کو بے حد پیچیدہ کردیا ہے جبکہ ایک جانب حزب اللہ ، انصار اللہ اور عراقی مزاحمتی طاقتیں اسرائیل کے خلاف مسلسل اقدامات کررہی ہیں ایسی صورتحال میں ایران کےساتھ براہ راست ٹکراؤ کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہماری سیاسی قیادت میں بصیرت کا فقدان ہے غزہ جنگ میں وہ فیصلے کئے جارہے ہیں جو اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرناک ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جو اکثر اسرائیلیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی : اسماعیل ھنیہ ایک علامتی شخصیت تھے آپ ان کو اعلانات کرتے عالمی رہنماؤں سے ملتے جلتے اور جماعت کے لئے کوششیں کرتے دیکھتے تھے لیکن وہ حقیقت میں عملی اقدام کا تعین کرنے والے نہیں تھے۔
انھوں نے کہا کہ میں آپ کو ایسے بنیا دپرست شخض کی بات بتاتا ہوں جو دس ماہ سے اسرائیلیوں کے لیے ایک دردسر بنا ہوا ہے ، لاکھوں فلسطینی اس کی وجہ سے بے گھر ہیں اور انتہائی تکلیف میں ہیں لیکن اس کو کوئی کوئی پچھتاوا نہیں ہے اس نے کہا تھا کہ اس میں بہت سے لوگ شہید ہوں گے اور ایسا ہورہا ہے تو میں یہ کہوں گا کہ حماس میں حقیقی فیصلہ سازی اور جنگی اقدمات کا اگر کسی کو مکمل اختیار ہے تو وہ السنوار ہے نا کہ اسماعیل ھنیہ ہماری قیادت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے تھا۔