(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ابوحسام ہنیہ نے اپنے خاندان کے متعلق بتایا کہ ہمیں 1948میں فلسطین میں اپنا آبائی علاقہ جافا چھوڑنے پر مجبورہونا پڑااورہمارے خاندان کو غزہ سٹی کے اس علاقے میں پناہ لینا پڑی۔
ذرائع کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے صہیونی ناکہ بندی کا شکار علاقہ غزہ کی پٹی کے رہائشی 85 سالہ معمر فلسطینی مؤذن ابو حسام ہنیہ جو غزہ کے الدراج محلے میں واقع مسجد عمری کےمؤذن کے نام سے جانے جاتے ہیں مسجد میں ہی رہتے ہیں اور وزارت وقف اور مذہبی امور کے اعداد و شمار کے مطابق اب وہ غزہ پٹی کے سب سے قدیم مؤذن ہیں۔
ابوحسام ہنیہ نے اپنے خاندان کے متعلق بتایا کہ ہمیں 1948میں فلسطین میں اپنا آبائی علاقہ جافا چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑااورہمارے خاندان کو غزہ سٹی کے اس علاقے میں پناہ لینا پڑی۔
رضاکارانہ طور پر مسجد میں اذان دینے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب میں نے مؤذن کے طور پر اس خدمت کا آغاز کیا تو مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ میری عمر اتنی لمبی ہو گی اور میرا نام اس عظیم مسجد کے ساتھ جڑ جائے گا، یہ ایک شاندار تجربہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا یہ میری زندگی کا عظیم ترین لمحہ تھا۔
فلسطینی بزرگ مؤذن کا کہنا ہے کہ میں کبھی بھی اس خدمت کے پیش نظر کسی دنیاوی اجر کی تلاش میں نہیں رہا کیونکہ مؤذن کا اجر بہت بڑا ہے اور اللہ تعالی کے پاس موجود ہے جو اسے روز قیامت مل جائے گاتاہم میری خواہش کے کہ مسجد اقصیٰ میں اذان دینے کا شرف بھی حاصل ہوجائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے مسجد کے اندر انتہائی سکون ملتا ہے، خاص طور پر ماہ رمضان میں جب میں مسجد کے اندر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتا ہوں اور فلسطین سے جڑی ماضی کی متعدد یادیں میرے سامنے ہوتی ہیں جو کہ دہائیوں پر محیط ہیں۔