(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) صہیونی قوم پسند خاتون وزیر داخلہ نےایک عرصے اس متنازعہ قانون کی بحالی کی مہم چلائی ہوئی تھی جس کا مقصداسرائیلی شہریوں کی غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے شادیوں کےذریعے ان کے خاندانی ملاپ کاراستہ روکا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ روز قابض صہیونی ریاست اسرائیل میں پارلیمان نے اکثریتی رائے سے متنازعہ لیکن عارضی طور پر متعارف کرائے گئے قانون کی بحالی کا فیصلہ کیا ہےجس میں مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی شہری اسرائیلیوں سے شادی تو کر سکیں گے تاہم انہیں اسرائیل میں رہائش یا وہاں کی شہریت نہیں دی جائے گی۔
صہیونی پارلیمان کے اس قانون کا مقصد غزہ کی پٹی اورمقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی مرد و عورت کو شادی کے ذریعے اسرائیلی شہریت کے حصول یا وہاں رہائش کے حقوق حاصل کرنے سے روکنا ہے،یہ قانون پہلی مرتبہ 2003ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کے نفاذ کی مدت میں گزشتہ برسوں کے دوران بار بار توسیع کی جاتی رہی تھی۔
اسرائیل کی کٹر قوم پسند خاتون وزیر داخلہ آیلت شاکد گذشتہ کئی مہینوں کے دوران اس متنازعہ قانون کی بحالی کی مہم چلاتی رہی تھیں جبکہ اس قانون کی بحالی سے قبل یہ کوششیں بھی کرتی رہی تھیں کہ مختلف اقدامات کے ذریعے اسرائیلی شہریوں کی غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے شادیوں کے بعد ان کے خاندانی ملاپ کا راستہ روکا جائے جبکہ اور اس نسل پرستانہ قانون کےنفاذ کے ذریعے ملک میں یہودی اکثریت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔