(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے غزہ میں صحت کا شعبہ مکمل طورپر منہدم ہوچکا ہے جس کے باعث زخمیوں اور مریضوں کو بچانا ممکن نہیں ہوگا۔
امریکہ اور برطانیہ کے آزاد محققین لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور امریکہ میں جانز ہاپکنز سنٹر فار ہیومینٹیرین ہیلتھ کے ماہرین کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے ہونے والے نقصان اور جارحیت کے بعد کی صورتحال پر تیار کردہ ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اگلے چھ ماہ کے دوران تقریباً آٹھ ہزار مزید افراد جاں بحق ہوسکتے ہیں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت اب بند ہو بھی جاتی ہے بھی ان لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں اسرائیلی علاقوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس کا صحت عامہ کا نظام متاثر نہیں ہوا تھا۔ شدید زخمی محققین کا خیال ہے کہ اگر لڑائی جاری رہتی ہے یا اس میں اضافہ ہوتا ہے تو غزہ میں زیادہ تر اضافی اموات کی وجہ شدید چوٹیں ہوں گی۔ لیکن خوراک کی کمی، ہیضہ جیسی متعدی بیماریوں اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کاعلاج نہ ہونے اور دیگر موذی اموات بھی ہزاروں افراد کی جان لے لیں گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدترین صورت حال میں اگر لڑائی کی رفتار بڑھ جاتی ہے یا کوئی بڑی بیماری پھیلتی ہے تو اگست کے اوائل تک تقریباً 8،500 سے زائد افراد شہیدہو سکتے ہیں، جن میں 68,00 اموات شدید زخمیوں کی وجہ سے ہوں گی غزہ غزہ بیماریوں کا پھیلاؤ جنگ بندی کے تحت بھی اسی عرصے میں تقریباً 11,580 افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
اگر وبا غزہ میں صفائی اور صحت کے نظام کی بحالی سے متعلق چیلنجوں کو بڑھا دیتی ہے تو اموات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سے تقریباً 3,250 اموات طویل مدتی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوں گی جو شدید زخموں کے نتیجے میں ہوسکتی ہیں اور 8,330 دیگر وجوہات کے نتیجے میں ہوں گی۔ غزہ میں وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 7 اکتوبر سے جاری لڑائی کے نتیجے میں 29,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اضافی ہلاکتوں کے اندازوں میں عام شہری اور جنگجو دونوں شامل ہیں۔ برطانوی حکومت کی طرف سے مالی مدد سے تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں اموات کی تعداد گننا ایک چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے اور اس رپورٹ کا مقصد زیادہ وضاحت فراہم کرنا ہے۔