(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں چند گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد نیتن یاہو کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی ، اگرچہ صیہونی فوج کی جانب سے اعلان کے باوجود عید کے روز بھی صیہونی فوج نے شہر پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔
تفصیلات کےمطابق غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج نے غزہ میں امداد کی ترسیل کے لئے کچھ علاقوں میں انسانی ہمدری کے تحت شہر پر صبح سے شام سات بجے تک جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوج کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر جنگ میں وقفے کے اعلان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نیتن یاہو کی طرف سے یہ تنقید اس وقت سامنے آئی جب فوج کی طرف سے بظاہر اس اپنی نوعیت کے پہلے یکطرفہ اعلان کی اطلاع ملی۔ اگرچہ غزہ سے عید الاضحیٰ کے روز بھی یہی اطلاعات سامنے آتی رہیں کہ عید کے باعث کچھ جنگی وقفوں کا اسرائیلی اشارہ بھی درست ثابت نہیں ہوا اور اسرائیلی جنگی کارروائیاں اسی طرح جاری رکھی گئیں، جس طرح اس سے پہلے جاری تھیں۔ مگر یہ اچانک اعلان فوج نے کیا ہے کہ وہ غزہ میں امداد کی ترسیل کے لیے کچھ علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر جنگ روکا کرے گی۔
اتوار کے روز اسرائیلی فوج نے کرم شالوم راہداری پر روزانہ کے لیے جنگی وقفے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وقفہ فوج کے مطابق صبح پانچ بجے سے سہہ پہر 4 بجے تک رہے گا۔ اس دوران کرم شالوم راہداری سے صلاح الدین روڈ تک اور اس کے نزدیک شمال کی طرف جنگی وقفہ رہے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جب اس اعلان کے بارے میں سنا تو ایک اسرائیلی ذمہ دار کے مطابق انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری سے کہا ہے کہ فوج کو بتایا جائے کہ یہ 11 گھنٹوں پر پھیلا وقفہ قابل قبول نہیں ہے۔
واضح رہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اس وقت بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں غزہ پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سمیت جنگی جرائم کے مقدمات پر مقدمہ دائر ہے جن کی وجہ سے صیہونی سیاسی و حکومتی قیادت کو بین الاقوامی قانون کے تحت کئی عدالتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسی سبب خود وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا اشارہ مل چکا ہے۔ ایسے ہی کئی خطرات اسرائیلی فوج کے اعلیٰ حکام اور اہلکاروں کے لیے بھی نظرانداز نہیں کیے جاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی غزہ جنگ غیر معمولی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آئینہ دار ہے۔ جن کے مضمرات سے بچنے کے لیے کم از کم اس طرح کے اعلانات کرنے کا ریکارڈ اسرائیلی فوج کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔
اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو نیتن یاہو کی تنقید اسرائیلی فوج کے لیے بین الاقوامی عدالتوں کی سطح پر چیلنجوں کے حوالے سے مفید ہو گی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی فوج پر گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ وہ بھی کل کلاں چاہیں تو اسی کو اپنے لیے بین الاقوامی سطح پر عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
چھ بار وزیر اعظم رہنے والے بیجمن نیتن یاہو سیاسی اعتبار سے اپنے کیرئیر کے انجام کو پہنچے ہوئے شخص سے یہ توقع کرنا مشکل نہیں ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے بیان کے بعد فوج نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ معمول کی جنگ اور جنگی کارروائیوں میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ حتیٰ کہ رفح میں بھی جنگ جاری رہے گی۔
نیز جنوبی غزہ میں بھی اسرائیلی فوج اپنی جنگی کارروائیوں کے حوالے سے فوکس جاری رکھے گی۔ واضح رہے وسطی غزہ میں ہی آٹھ اسرائیلی فوجیوں کی ہفتے کے روز ہلاکت ہوئی ہے۔