(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) امریکہ نے ایک بارپھر حماس سے معاہدہ منظور کرنے کا مطالبہ کرتےہوئے کہا ہے کہ "ضائع کرنے کو کوئی وقت نہیں بچا ہے تاہم حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور 16 دیگر عالمی رہنماؤں بشمول اہم یورپی اور لاطینی امریکی اتحادیوں نے جمعرات کو مشترکہ طور پر فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس پر جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ضائع کرنے کو کوئی وقت نہیں بچا ہے۔ ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ معاہدہ منظور کرے۔
امریکی صدر کی جانب سے جاری کردہ اس بیان پر اہم یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ساتھ اسپین کے رہنماؤں نے بھی دستخط کیے ۔
امریکہ نے ایک بارپھر حماس سے معاہدہ منظور کرنے کا مطالبہ کرتےہوئے کہا ہے کہ "ضائع کرنے کو کوئی وقت نہیں بچا ہے تاہم حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے ۔
بیان میں کہا گیا، "اس فیصلہ کن لمحے میں ہم اسرائیل کے ساتھ ساتھ حماس کے رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو بھی حتمی سمجھوتہ ضروری ہو، وہ کریں تاکہ یہ معاہدہ طے ہو جائے اور ہمارے یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ اس خوفناک تنازعے کے دونوں اطراف کے لوگوں بشمول شہری آبادی کو سکون ملے۔
"نیز کہا گیا، "یہ جنگ کے خاتمے کا وقت ہے اور یہ معاہدہ ضروری نقطۂ آغاز ہے۔”بائیڈن نے گذشتہ ہفتے عوامی طور پر ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں اسرائیل غزہ کے آبادی کے مراکز سے دستبردار ہو جائے گا اور حماس ابتدائی چھ ہفتوں کے لیے یرغمالیوں کو آزاد کر دے گی اور جنگ بندی میں توسیع کر دی جائے گی تاکہ اس دوران مذاکرات کار دشمنی کے مستقل خاتمے کے لیے کوئی حل پیش کریں۔
انہوں نے اس منصوبے کو اسرائیلی پیشکش قرار دیا حالانکہ اس پر دائیں بازو کے بعض اسرائیلی سیاست دانوں نے تنقید کی ہے جو وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کے ناقد ہیں۔
ثالث قطر نے یہ منصوبہ نظرِثانی کے لیے حماس کو پیش کر دیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن بھی عرب وزرائے خارجہ کے ساتھ فون کالز کے ذریعے اس منصوبے کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔جمعرات کے بیان پر تھائی لینڈ نے بھی دستخط کیے جس کی بڑی افرادی قوت اسرائیل میں کام کر رہی ہے اور سات اکتوبر کے حملے میں حماس کے ہاتھوں قید 250 کے قریب یرغمالیوں میں اس کے بھی تقریباً 30 شہری شامل تھے۔بیان پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک میں آسٹریا، بلغاریہ، کینیڈا، ڈنمارک، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ اور سربیا شامل ہیں۔