(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) حماس سمیت دیگر مزاحمتی تحریکووں کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات شروع کرنے کے لیے موساد سربراہ اگلے ہفتے دوبارہ دوحہ اور قاہرہ جائیں گے۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے ذرائع ابلاغ کے مطابق صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو بتایا گیا ہے کہ طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود بھی غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کو زندہ بازیاب کرانا قریب قریب نا ممکن ہے اگر یرغمالیوں کو رہا کرانا چاہتے ہیں تو حماس کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنا ہوں گے، اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے متعلق امید میں کمی کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے موساد اور شاباک کے سربراہوں کو دوحہ اور قاہروں واپس بھیجنے پر اتفاق کر لیا۔
موساد اور شاباک کے سربراہان اسرائیلی چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ نیتن یاہو نے ایک معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں مکمل کرنے کے لیے وفد کی واپسی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ چینل نے اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ نیتن یاہو نے موساد کے سربراہ کی دوحہ واپسی اور شاباک انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کو اگلے ہفتے کے اوائل میں قاہرہ بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔
ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ قبل حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر میں بالواسطہ بات چیت ہوئی تھی جس میں امید کی ایک علامت دیکھی گئی تھی۔ تاہم تفصیلات اور کچھ بقایا حالات پر بحث کے بعد ان امیدوں سے تیزی سے دم توڑ دیا تھا۔
واضح رہے کہ صیہونی ریاست اور حماس کے درمیان مصری، قطری اور امریکی ثالثی کے ذریعے گزشتہ دسمبر سے مذاکرات جاری ہیں۔ یہ مذاکرات حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کئے جارہے۔ حماس کے پاس 130 اسرائیلی موجود ہیں جن میں سے 30 کے متعلق اسرائیلی بمباری اور گولہ باری میں مارے جانے کا خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر اختلافات جاری رہے۔ یہاں تک کہ اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے گزشتہ پیر کو اعلان کیا کہ محصور غزہ کی پٹی میں کئی مہینوں سے جاری جنگ بندی کے مذاکرات اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔
جنگ بندی کے دوران حماس نے اسرائیل کے غزہ کی پٹی میں موجود رہنے سے انکار کردیا تھا۔ ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا دوحہ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں تل ابیب نے بھاری قیمت ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ حماس نے ضد کا مظاہرہ کیا۔
حماس نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ اسرائیلی خواتین فوجیوں کے بدلے رہائی پانے والوں کی فہرست کو ویٹو کرنے کا حق اسرائیل کو حاصل نہیں ہوگا۔ ہر ایک خاتون فوجی کے بدلے حماس کے عمر قید کی سزا پانے والے 7 قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔