(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی کمیشن کی جانب سےاسرائیلی حکام کو ابو حمید کی زندگی کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مظلوم قیدی کی رہائی کے لیے فوری طور پر مداخلت کرے اور اسے کینسر کے مرض میں اسرائیلی مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھانے کے اس سلسلے کو روکے۔
مقبوضہ فلسطین میں اسیران اور سابق قیدیوں کے امور کے کمیشن کے وکیل کریم عجوہ نے اپنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ 49 سالہ اسیر ناصر ابو حمید کیحالت انتہائی تشویش ناک ہے اور وہ خطرناک مرحلے سے گزر رہے ہیں جس میں ان کا وزن تیزی سے گھٹتے ہوئے صرف 52 کلو رہ گیا ہےجبکہ صحت کی بدترین صورتحال کے باعث کیموتھراپی کے دو سیشن مکمل کیے جاسکے ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ اسیر ابو حمید کینسر کی بیماری کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیات کی کمی کا شکار ہیں اور کیموتھراپی کی ضرورت کے باوجود انہیں شدید تھکاوٹ اور کمزوری کے پیش نظر تھراپی کے عمل کو مستقل جاری رکھنا ناممکنات ہو تا جارہا ہے جبکہ سانس لینے کے لیے بھی انہیں آکسیجن ٹیوب کی مدد کی ضرورت ہے۔
عجوہ نے وضاحت کی کہ اسیر ابو حامد اس وقت راملہ جیل کے کلینک میں ہے، جہاں انکے ایک قیدی بھائی محمد جو پہلےہی قابض جیل کی اسیری کاٹ رہے ہیں ابو حمید کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہیں۔
فلسطینی کمیشن کی جانب سےاسرائیلی حکام کو ابو حمید کی زندگی کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مظلوم قیدی کی رہائی کے لیے فوری طور پر مداخلت کرے اور اسے کینسر کے مرض میںاسرائیلی مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھانے کے اس سلسلے کو روکے۔
قابل ذکر ہے کہ رملہ کے العماری کیمپ سے تعلق رکھنے والے فلسطینی قیدی ناصر ابو حمید 2002 سےاسرائیلی حراست میں ہیں اور انہیں 7 عمر قید اور 50 سال کی سزا سنائی گئی ہے اس کے علاوہ ان کے پانچ بھائی بھی اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی مزاحمت کی پاداش میں اسیری کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے گھرمیں تنہا ان کی والدہ کی رہائش گاہ کو قابض افواج نے کئی بار مسمار کیا ہے ،صہیونی حراست کے دوران ان کے والد خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ بوڑھی والدہ کئی سالوں سے اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اپنے بیٹوں خاص طور پر بیمار ابو حمید سے ملاقات سے محروم ہیں۔