(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) حالیہ دنوں فلسطین کے حالات نے پوری دنیا کی عالمی سیاست میں بھونچال پیدا کر کے رکھ دیا ہے۔ آج دنیا کی تمام حکومتوں کی سیاست میں فلسطین کے حالات ایک خاص اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ مغربی حکومتیں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی حکومتیں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی بقاء کے لئے فلسطینیوں کے قتل عام کی لائسنس ہولڈر بن چکی ہیں۔
انسانیت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں فلسطین کے مظلوم عوام کے دوست اور دشمن بہت تیزی سے آشکار ہو رہے ہیں۔ منافق بھی ظاہر ہو چکے ہیں۔ مغربی حکومتیں بچوں کی قاتل بن چکی ہیں۔ وہ حکومتیں جو دنیا کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے راگ پڑھاتی تھیں آج انسانیت کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کے عوام ایک طرف ہو چکے ہیں اور دنیا کی بیشتر حکومتیں دوسری طرف یعنی اسرائیل کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔
پاکستان کا ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔ بانیان پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور دیگر نے قیام پاکستان سے قبل ہی فلسطین کے خلا ف ہونے والی برطانوی اور امریکی سازشوں کو بر صغیر میں طشت از بازم کیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کو بتایا کہ فلسطین کے ساتھ خیانت ہو رہی ہے۔ فلسطینیوں خی زمین پر باہر سے لا کر صیہونیوں کو آباد کر کے فلسطین کے اندر ایک اور ریاست اسرائیل بنانے کی منصوبہ بندی جاری ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ تمام تر سیاسی اور مذہبی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک رہنم اصول دیا اور کہا تھا کہ ”فلسطین کے اندر بنائی جانے والی یہودی ریاست در اصل مغربی حکومتوں کا ناجائز بچہ ہے“۔ یعنی اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔
پھر یہی موقف ہمیشہ قائد اعظم اور ان کے رفقاء اور آل انڈیا مسلم لیگ کا رہا۔ یقینا ان پر کافی دباؤ بھی تھا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کسی بھی موقع پر مسئلہ فلسطین کی حمایت اور غاصب اسرائیل سے متعلق اصولی موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا۔
یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب فلسطین پر صیہونیوں کا ناجائز تسلط قائم ہو تو قائد اعظم سے معلوم کیا گیا کہ اب آپ کا موقف کیا ہے تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز یاست ہے اور پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
خارجہ پالیسی کے طالب علم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی خارجہ پالسیی کے بنیادی اصول بیان کئے تھے جن میں اسرائیل کے بارے میں ٹھوس اور واضح موقف تھا جو نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتا تھا بلکہ عالمی سیاسی منظر نامہ پر حق و عدالت کے قیام کی تاکید پر مبنی تھا اور اسی طرح ظالم و جابر حکومتوں کی جانب سے مظلوم اقوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور ظلم کے خلاف مبنی تھا۔
قائد اعظم کا یہ اصولی موقف ہمیشہ پاکستان کی عوام کی دلوں میں ایک کرن اور امید کی مانند ہے۔ یہی بنیادی رہنما اصول ہی ہیں جنہوں نے ملت پاکستان کے سر کو پوری دنیا میں بلند کر رکھا ہے۔
حالیہ زمانہ میں جہاں مغربی حکومتیں اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کر رہی ہیں اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں وہاں قائد اعظم کے قائم کردہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے نگران وزیر اعظم بھی امریکہ اور مغربی حکومتوں کے سامنے اپنی مستقبل کی نوکری کو پکا کرنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کو نادان دوست کہا جائے یا پھر عاقل دشمن یہ فیصلہ تو اب عوام کریں گے۔ بہر حال سات اکتوبر کے فلسطین میں شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد جہاں پوری دنیا حیران وپریشان تھی وہاں پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ تھے جو سوشل میٖڈیا پر فلسطین میں دوریاستوں کے قیام کی فضول باتوں میں اپنا وقت برباد کر رہے تھے۔جیسے ہی عوامی تنقید کا سامنا ہوا تو پھر صحافیوں کی ایک نشست بلا کر وہاں انہوں نے یہ بات مجبوری میں کہہ ہی دی کہ اسرائیل ایک ناجائز ریا ست ہے۔
بعد ازاں وہ کچھ عرصہ اس معاملہ پر خاموش رہے لیکن گذشتہ دنوں انہوں نے ای نجی ٹی وی چینل پر انٹر ویو کے دوران جب اینکر نے ان سے پوچھا کہ وزیر اعظم صاحب آپ جب سوشل میڈیا پر دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ بات تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ کے خلاف اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں خلاف ورزی ہے۔
اس سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی پالسیی کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص کہ جسے مسئلہ فلسطین کی تاریخ اور درست حقائق تک کا علم نہیں ہے صرف اپنے مغربی اور سعودی عربی آقاؤں کی خوشنودی اور مستقبل میں اپنی کوئی نوکری پکی کرنے کے لئے اسرائیل کی حمایت میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ قائد اعظم محمد علی جنا ح کی توہین کر ڈالی۔
کیا پاکستان جو ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے جسے ہم دو قومی نظریہ کہتے ہیں کیااس نظریہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ کیا انوار الحق کاکڑ قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ سمجھدار اور عقلمدن سیاست دان ہیں؟اگر انوار الحق کاکڑ کو مسئلہ فلسطین کی تھوڑی سے حقیقت معلوم ہوجاتی تو یقینا وہ ایسی احمقانہ بات سے اجتناب کرتے۔
نظریہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔تبدیل ہوتا ہے تو پھر انوار الحق کاکڑ جیسے امریکی اور اسرائیلی نمک خوار بن جاتے ہیں پاکستانی باقی نہیں رہتے۔ یہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہے، ہمارا پاکستان علامہ اقبال کا پاکستان ہے۔ ہمارے اس پاکستان میں اسرائیل کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
اگر حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنی خارجہ پالیسی کو سعودی عرب یا کسی اور عرب ملک کے ساتھ نتھی کرنے پر تلے ہیں تو ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان کی خود مختار اور آزادخارجہ پالیسی ہی پاکستان کی عزت اور ترقی کی ضامن ہے۔ عرب حکمران مفاد پرست اور امریکی غلام ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے اسرائیل کے لئے اپنی غلامی کا ثبوت دینے کے لئے ایک لمحہ یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر ان کو تاریخ معلوم نہیں تو کوئی بات نہیں لیکن کم سے کم گذشتہ دو ماہ سے جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے وہ سب کچھ تو واضح اور آشکار ہے کہ کس طرح معصوم فلسطینیوں کا قتل عام اور نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن ماضی میں انگریزوں کی غلامی کرنے والے خاندانوں کی باقیات سے صرف یہی امید کی جا سکتی ہے جو انوار الحق کاکڑ نے انجام دیا ہے۔
حیرت انگیزاور بڑے ہی شرم کی بات ہے کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست کہ جو ایٹمی صلاحیت کی حامل ہے اس کا وزیر اعظم اپنے ہی بانی اور قائد کی توہین کا مرتکب ہو جاتا ہے اور ابھی تک عہدے پر کام کر رہا ہے۔ عدلیہ حرکت میں نہیں آئی۔
دوسری ایک اہم بات جو انوار الحق کاکڑ نے اپنے اسی انٹر ویو میں بیان کی وہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ایٹمی قوت پاکستان کا نگران وزیر اعظم
ایک کم فہم انسان ہے، جو یہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان کو اسرائیل کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں۔ کیا پاکستان حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے جو فلسطینیوں کومشورہ دیا جا رہا ہے کہ ان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں؟ یہ اس طرح ہے جیسے گواہ کے منہ میں اپنی زبان دینا۔کاش کوئی انوار الحق کاکر صاحب کو بتا دے کہ فلسطینیوں نے یہ فیصلہ نہیں کرنا جو آپ کی زبان پر امریکہ اور سعودی عرب نے چڑھا دیا ہے بلکہ فلسطینیوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے یا باہر سے آنے والے صیہونیوں کا؟
کیا انوار الحق کاکڑ صاحب کوئی آپ کے گھر پر یا آپ کے پلاٹ پر قبضہ کر لے تو کیا آپ اس کے متعلق یہ فیصلہ کریں گے کہ اس قبضہ گیر کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ اپنی زمین یا گھر کو بازیاب کیا جائے؟
جناب وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب آپ سے گذارش ہے تھوڑا بہت مطالعہ کر لیں تا کہ آپ کو مسئلہ فلسطین کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں اور پلیز اپنے اوپر سے امریکی و سعودی ورژن کو اتار پھینکیں یہ ذلت کا طوق ہے۔
میں پاکستان کے باضمیر طبقات سے گذارش کرتا ہوں کہ وزیر اعظم کے اس بیانیہ کی شدید مذمت کریں کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آخر ان کو یہ مینڈیٹ کس نے دیا ہے؟ کیا نظریہ پاکسان کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ کیا دو قومی نظریہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو مطلب یہ ہو ا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے 1947 میں جو قربانیاں دی تھیں وہ سب فضول تھیں۔ دو قومی نظریہ صرف باتوں کی حد تک تھا اب قائد اعظم اور علامہ اقبال اور سر سید احمد خان سے زیادہ سمجھدار لوگ پاکستان کی حکومت چلا رہے ہیں لہذا ان کے مطابق یہ سب ختم کر دینا چاہئیے۔؟؟
میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ قائد اعظم کے خلاف اس بیان پر از خود نوٹس لے کر وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف سنگین غداری اور آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
اسرائیل کی غاصب ریاست کے بارے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی کا موقف عالم اسلام کے موقف کی تائید تھی۔ یہ محض شخصی رائے نہیں تھی بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ تھی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطین کی تقسیم کے کسی بھی منصوبے کو نا انصافی کا نام دیا۔
غاصب اسرائیل کی مخالفت اور مظلومین فلسطین کی حمایت پاکستان کا ہمیشہ اور واضح موقف رہا ہے۔ بانی پاکستان کے فرمان کی تضحیک کر کے نگران وزیراعظم نے ثابت کیا کہ وہ تاریخی حقائق سے بے خبر اور امت مسلمہ جیسے لفظ سے بے نیاز ہیں۔ ایسا شخص وزیراعظم جیسے حساس منصب کا قطعی اہل نہیں ہو سکتا۔ان کے کندھوں پر ان کے قد سے بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔
بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے صیہونیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انوار الحق کاکڑ نے پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ جبکہ فاشسٹ اسرائیلی،صیہونی غاصب حکومت کے گزشتہ 75 سال کا ظلم و ستم اگر کسی کو بھول چکا ھے یا نہیں جانتا تو حالیہ دو ماہ کے اس جنایت کار حکومت کے غزہ اور مغربی کنارے پر مظالم کو اگر کوئی با ضمیر انسان دیکھ لے،تو وہ اس طرح کی حکومت کو تسلیم کرنے، اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اصولی موقف، یعنی اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا. بالخصوص اس وقت جب غزہ کے مسلمانوں کا صبح و شام قتل عام ھو رھا ھے۔یہ باتیں وھی کر سکتا ھے جو خودصیہونی ہو۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان