(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی پارلیمان میں اپوزیشن کے ارکان نے صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی حکومت کو ناکامی سے دو چار کر نے اورانہیں قیادت سے ہٹانے کیلیےصہیونی آبادکاروں کے حقوق کے خلاف ووٹ ڈالے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں قائم اسرائیلی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کو صہیونی آبادکاروں کے قانونی و سیاسی حقوق کی تجدید سے متعلق ووٹنگ کے دوران پارلیمنٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دائیں بازو کی اپوزیشن کی قیادت کر نے والے سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی سربراہی میں حزب اختلاف نےحکران اتحاد کے خلاف ووٹ ڈالے۔
ذرائع نے بتایا کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیل کے 1967 کے قبضے کے بعد سے نافذ العمل قانون مغربی کنارے میں آباد کاروں کو وہی حقوق فراہم کرتا ہے جو اسرائیل کے شہریوں کے ہوتے ہیں۔ اسرائیل میں ہر پانچ سال بعد پارلیمنٹ سے خود بخود توثیق ہو جاتی ہے لیکن وسیع اتحاد کے لیے دو جماعتیں عرب رام پارٹی کے ایک رکن اور بائیں بازو کی میرٹز پارٹی کے ایک رکن نے بل کے خلاف ووٹ دیا جس کے باعث صہیونی حکومت کی یہ ایک بڑی سیاسی ناکامی ہوئی ہے۔
اسرائیلی پارلیمان میں حزب اختلاف کا یہ اقدام صہیونی حکمران جماعت کو ناکامی سے دوچار کر نے کیلیے اپوزیشن کے ارکان کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں صہیونی آبادکاروں کے سیاسی اور قانونی حقوق کی تجدید کے خلاف ووٹ ڈال کر صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی زیر قیادت حکومت کو قیادت سے ہٹانے کیلیے کیا گیا ہے جس پر بینیٹ کافی برہم بھی ہیں اور اسے افسوس ناک قرار دے رہے ہیں البتہ اپوزیشن یہ اعلان کر چکی تھی کہ وہ صرف حکومت پر عدم اعتماد ظاہر کرنے کے لیے بل کے خلاف ووٹ دے گی، اتحاد کے لیے 52 کے مقابلے میں ٥٨اکٹھے ہوئے۔
واضح رہے کہ قابض ریاست اسرائیل کی موجودہ حکومت نے حال ہی میں ایوان میں اپنی اکثریت کھو دی ہے، جس نے ’یہودا اور سامریہ کے قانون‘ کے خلاف مظاہرے کی منزلیں طے کیں- اگر اکثریتی تائید کو 1 جولائی کو منظور نہیں کیا جاتا ہے، تو وہاں رہنے والے 475,000 سے زیادہ اسرائیلیوں کو دوسرے اسرائیلیوں جیسے حقوق نہیں ملیں گے۔