(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) امریکی سینیٹرز کے اس دو طرفہ گروپ کی جانب سے امریکی قانون سازوں نے ابو عاقلہ کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس پر ایوان کے 24 ارکان نے تحقیقات کی حمایت میں دستخط کیےان افراد میں 14ارکان ڈیموکریٹس پارٹی کے ہیں جبکہ 10 ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کی جاری کردہ رپورٹ کےمطابق مقبوضہ فلسطین میں جنین پناہ گزین کیمپ میں صہیونی فورسز کی دراندازی کے دوران کارروائی کی کووریج کر نے والی فلسطینی نژاد امریکی خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کی شہادت کے حوالے سے شائع کیے گئے ایک پیچیدہ تجزیے کے بعد امریکہ کے ریپبلکن پارٹی کےسینیٹر مِٹ رومنی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھی سینیٹر جون اوسوف کے ساتھنے کہا ہے کہ فلسطینی صحافی کی موت کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہاکہ ایک اسرائیلی سنائپر نے جان بوجھ کرصحافی خاتون پر گولی چلائی جب وہ ایک اسرائیلی جارحیت کی کوریج کر رہی تھیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے ابتدائی طور پر جو دعوے کیے تھے وہ غلط تھےجس پر ابوعاقلہ کی موت نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کی آگ بھڑکا دی، خاص طور پر ان کی تدفین کے مراحل میں صہیونی فوج کے حملے کی وائرل ہونے والی ویڈیوز نے دنیا بھر کے قانون سازوں اور مشہور شخصیات بشمول عام عوام نے ابو عاقلہ کے قاتلوں کو کیفر کرداد تک پہنچانےکیلیے جوبائیڈن انتظامیہ سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریپبلکن اورڈیموکریٹک جماعتوں کے ان سینیٹرز نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے خصوصی ملاقات کی جس کا مقصد ابو عاقلہ قتل کیس کی تحقیقات کیلیے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن کو لکھے گئے مکتوب جس میں شیرین ابو عاقلہ کے قتل میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے سے متعلق اقدامات اور تحقیقات کے فوری آغاز کیلیےزور دیا گیا ہے
مکتوب میں کہا گیا ہے کہ صحافتی آزادی ایک بنیادی امریکی قدر ہے، اور جب صحافی ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو ہم استثنیٰ کو قبول نہیں کر سکتے۔ ہمارا اصرار ہے کہ انتظامیہ مکمل اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے اور محترمہ شیرین ابو عاقلہ کی موت کے لیے انصاف فراہم کیا جائے۔
واضح رہے کہ 51 سالہ شیرین ابو عاقلہ کو 11 مئی2022ء کوقابض صہیونی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین پناہ گزین کیمپ میں صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اسرائیلی حملے کی کوریج کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا تھاجس کے گواہ ان کے ساتھ صحافی علی السمودی بھی موجود تھے جنہیں صہیونی فوج کی گولیوں سے شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔