(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطینی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم کے دورریاستی حل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کی بات کرنے والے فوری طورپر مذاکرات کی میز پر آئیں تو محسوس ہوگا کہ امن چاہتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے غیر قانونی صہیونی وزیراعظم لائر لاپیڈ کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دوریاستی حل پر گفتگو پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسی خواہش کا اصل امتحان مذاکرات کی میز پر فوری واپسی ہے اگر صہیونی ریاست امن چاہتی ہے تو فوری طورپر مذاکرات کی میز پر واپس آنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل جان بوجھ کر دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور اسے امن عمل میں مزید قابل اعتماد پارٹنر تصور نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیے
برطانیہ کا اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے فیصلہ
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل جو بین الاقوامی قراردادوں سے انکار کرتا ہے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امن عمل میں ہمارے لیے شراکت دار نہیں بنے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اس قبضے کو برقرار رکھا ہے اور ہمارے پاس اس کے ساتھ موجودہ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ ہم واحد فریق رہیں جو ہم نے 1993 میں اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کی مگر دوسری طرف اسرائیل نے ان معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کی ہیں۔محمود عباس نے زور دے کر کہا کہ یہ ہمارا حق بن گیا ہے اور ہماری ذمہ داری بھی بن گئی ہے کہ ہم اپنے حقوق کے حصول اور انصاف پر مبنی امن کے حصول کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کریں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جمعرات کو ان کی یہ تقریر امریکی صدر جو بائیڈن کے اگست میں اسرائیل کے دورے کے موقع پرطویل عرصے سے غیرفعال دو ریاستی حل کی حمایت کی بازگشت ہے۔
انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستوں پر مبنی معاہدہ اسرائیل کی سلامتی،اس کی معیشت اور ہمارے بچّوں کے مستقبل کے لیے ایک درست چیز ہے۔یائرلاپیڈ نے مزید کہا کہ کوئی بھی معاہدہ ایک پُرامن فلسطینی ریاست سے مشروط ہوگاجس سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔