رپورٹ میں کہا گیاہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کی جانب سے قیدیوں کو جبری خوراک دینے کے قانون کی منظوری کا مقصد انتہا پسند یہودی گروپوں کو مطمئن کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ یاھو حکومت مذہبی یہودیوں کے جذبات کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کررہی ہے۔
انسانی حقوق کے مندوب ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے منظوری کے بعد رائے شماری کے لیے مسودہ قانون کو پارلیمنٹ میں "یش عتید” بلاک کےایک رکن نے پیش کیا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہودی انتہا پسندوں کو حکومت کی کاکردگی کےحوالے سے مطمئن کرنا ہے۔
ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو جبری خوراک دینے کے قانون کی مخالفت نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹروں کی انجمنیں کرچکی ہیں بلکہ خود اسرائیل کے کئی ادارے بھی اس قانون کی کھلم کھلا مخالفت کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو جبری خوراک دینا انہیں جسمانی اذیتیں دینے کے مترادف ہے۔ دنیا کے کسی بھی قانون اور ضابطے میں قیدیوں کو جبری خوراک دینے کا تصور نہیں ہے۔ کسی بھی قیدی کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی خوراک دی جاسکتی ہے۔ کسی ملک کی فوج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جیلوں میں ڈالے گئے افراد کو جبرا خوراک دینا شروع کردے۔
انسانی حقوق کے مندوب نے سنہ 1991 ء میں مالٹا میں عالمی ادارہ طب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اسرائیل میں منظور ہونے والے متنازعہ قانون پر عمل درآمد رکوانے کے لیے صہیونی ریاست پر دبائو ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ سنہ 1991 ء میں مالٹا میں انسانی حقوق بالخصوص طب کی دنیا کی 43 تنظیموں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں بھوک ہڑتالی اسیران کو جبری خوراک دینے کے قانون کو جرم قرار دیا تھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین