فلسطین کی وزارت اسیران نے بتایا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” اور اسرائیل کےدرمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد ایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کی رہائی کے بعد بھی صہیونی جیلوں میں 5300 فلسطینی زیرحراست ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق وزارت اسیران کے ڈائریکٹر اطلاعات ریاض اشقرنے میڈیا کوبتایا کہ اسرائیل کے ساتھ "وفاء احرار” ڈیل کے تحت 477 مرد و خواتین اسیروں کی رہائی کے بعد بھی پانچ ہزار تین سو فلسطینی تاحال پابند سلاسل ہیں۔ میں 526غزہ کی پٹی،131مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کےعلاقوں،295مقبوضہ بیت المقدس اور بقیہ مقبوضہ مغربی کنارے سےتعلق رکھتے ہیں۔
ریاض اشقرنے بتایا کہ وفاء اسیران معاہدے کے تحت نائل البرغوثی کی رہائی کے بعد کریم یوسف فضل، یونس قدیم ترین قیدیوں میں پہلے نمبر ہیں۔ انہیں 06 جنوری 1983ء کو گرفتارکیا گیا تھا، جواب تک صہیونی جیلوں میں انتیس سال کی قید کاٹ چکے ہیں۔
ریاض اشقرکےمطابق سنہ 1993ء میں فلسطینی انتظامیہ اوراسرائیل کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کے بعد قدیم ترین اسیران کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سنہ 1993ء میں قدیم اسیران کی تعداد 299 تھی جوکہ اب 126 رہ گئی ہے۔ اسی طرح 20 سال سے زیادہ کی قید کاٹنے والے اسیران کی تعداد 145 سے کم ہو کر 51 رہ گئی ہے۔ ان میں سے 12 اسیر گرین لائن کے اندر کے علاقوں، چار بیت المقدس، سات غزہ کی پٹی اور اٹھائیس مغربی کنارے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ریاض اشقرنے بتایا کہ ایک چوتھائی صدی یعنی پچیس سال یا اس زائد عرصے تک صہیونی جیلوں میں قید کاٹنے والے فلسطینی مجاہدین آزادی کی تعداد 45سے کم ہوکر22 رہ گئی ہے۔حال ہی میں حماس کےساتھ طے پائے معاہدے کے تحت چار ایسے اسیران کوبھی رہا کیا جا رہا ہے جوگذشتہ 30 سال سے صہیونی جیلوں میں زیرحراست تھے۔