فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ سنہ 1947ء میں عرب ممالک میں اقوام متحدہ کی فلسطین میں دو ریاستوں کے بارے میں قرارداد نمبر181 کی حمایت نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی، کیونکہ عربوں کے اس فیصلے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست آج تک وجود میں نہیں آ سکی ہے۔ جب فلسطین کے ایک حصے پر اقوام متحدہ اسرائیلی ریاست اور دوسرے حصے پر فلسطینی ریاست کی منظوری دے رہی تھی، عرب ممالک کو چاہیے تھا کہ وہ اس وقت ہی یواین کی قرارداد کو تسلیم کر لیتے۔
خیال رہے کہ عرب ممالک کی اکثریت آج تک فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرتی چلی آ رہی ہے۔ سنہ 1947ء کی یہ وہی قرارداد ہے جس کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
صدرمحمودعباس نےاسرائیل کے ایک انگریزی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ سنہ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ قرارداد میں دو فلسطینی اور اسرائیلی ریاستوں کی بات کی گئی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اسرائیل کو تو ایک ریاست کا درجہ دے دیا گیا لیکن فلسطینی ریاست کو آج تک ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ سوال عالمی برادری کے لیے آج بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا فلسطینی ریاست کا قیام کیوں کرعمل میں نہیں لایا جا سکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں صدرمحمود عباس کا کہنا تھا کہ میں فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری عرب ممالک پر عائد کروں گا۔عرب ممالک نے تقسیم فلسطین کی قرارداد تسلیم نہ کر کے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی تھی جو عربوں کی ایک تاریخی غلطی تھی، فلسطینی آج تک عربوں کی اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی منظوری کے سلسلے میں دی گئی درخواست کے بارے میں محمود عباس نے کہا کہ اس درخواست سے فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے میں مدد ملے گی۔ فلسطین۔ اسرائیل مذاکرات کے بارے میں سوال کے جواب میں محمود عباس نے کہا کہ وہ فریقین میں جلد مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے کہ خطے کے تمام تنازعات کا واحد حل مذاکرات ہیں۔