فلسطین کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کے عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان چھ روزہ جنگ کے بعد صہیونی فوج نے 07 لاکھ 50 ہزارفلسطینیوں کو جیلوں میں ڈالا،
ان میں 1200 خواتین اور ہزاروں کی تعداد میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل رہنے والوں میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، طلباء، سیاست دان اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں۔
رپورٹ کےمطابق اٹھائیس ستمبرسنہ 2000ء کے بعد سے اب تک کم وبیش70ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ ان میں 9000 ہزار بچے اور 900 خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں سے چارخواتین ایسی بھی ہیں جو صہیونیوں کے عقوبت خانوں میں زچگی جیسے نازک مرحلے سے گذریں اور بچوں کو اسرائیلی جیلوں میں جنم دیا۔ عام شہریوں کے علاوہ فلسطینی سیاست دان، مزاحمتی تنظیموں کے رہ نما، علماء اور فلسطینی وزراء بھی شامل ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور اسیران کے امور کے ماہر عبدالناصر فروانہ نے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں اب بھی 4600 فلسطینی قید ہیں۔ ان کے علاوہ کئی دیگرعرب اور اسلامی ملکوں کے سینکڑوں شہری بھی صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ان میں اردن، مصر شام اور ایران کے شہری شامل ہیں۔
عبدالناصر فروانہ کے مطابق صہیونی جیلوں میں اس وقت بھی آٹھ خواتین،138 بچے،309انتظامی قیدی،27فلسطینی مجلس قانون ساز کے اراکین جن میں مروان برغوثی، احمد سعدات، حسن یوسف اور ان ہی میں حماس کے رہ نما اوراسپیکر ڈاکٹرعزیزدویک بھی سر فہرست ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 3410 فلسطینی مختلف نوعیت کی قید کی سزائیں پوری کرچکے ہیں اس کے باوجود وہ جیلوں میں زیرحراست ہیں۔ صہیونی عدالتوں نے ان کی رہائی کے بھی کئی بار احکامات دیے تاہم قابض صہیونی فوج نے ان احکامات کو مسترد کردیا ہے۔
زیرحراست 533 فلسطینیوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں،456 اسیران کو 20 سال یا اس سے زیادہ کی قید سزا سنائی گئی ہے جبکہ 1135 اسیران کو10 سے 20 سال کے درمیان کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین