(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)قابض اسرائیل کی سفاکیت اور ریاستی جبرو ظلم کی تازہ داستان میں مقبوضہ بیت المقدس کے شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی کوششیں شدت اختیار کر گئی ہیں۔ قابض ریاست کی بلدیہ نے دومرتبہ تسلسل سے صور باہر اور سلوان کے علاقوں میں فلسطینیوں کو ان کے مکانات خود منہدم کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ ان پر جھوٹے الزامات کے تحت غیرقانونی تعمیرات کا الزام لگا کر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
کل جمعہ کو نوجوان محمد عمر سمرین کو جبراً مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے والد کے گھر کے ساتھ بنائے گئے اضافی کمرے گرا دے، جو تقریباً پچاس مربع میٹر پر مشتمل تھے، جس میں ایک کمرہ اور چھوٹا سا کچن شامل تھا۔
محمد سمرین نے بتایا کہ قابض بلدیہ کے اہلکاروں نے انہیں 21 دن کے اندر اندر خود سے یہ کمرہ مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ گیارہ اگست تک مکمل کرنا تھا۔
محمد نے اپنی دہائیوں کی جدوجہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ کمرہ اور کچن سنہ2018ء میں اپنے والد کے پرانے گھر کے ساتھ بنایا تھا تاکہ وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ رہ سکیں، کیونکہ بیت المقدس میں کرایہ کے دام ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قابض بلدیہ نے ان پر دو تعمیراتی خلاف ورزیاں عائد کی ہیں جن کی رقم چوبیس ہزار شیکل ہے، جبکہ اگر وہ خود سے مسمار نہ کریں تو انہیں ستر ہزار شیکل سے زائد جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
اسی طرح قابض بلدیہ نے آج حمزہ عمیرہ کو بھی جبراً مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر کو خود منہدم کرے، جو کہ صور باہر کے جنوبی علاقے میں واقع ہے۔
حمزہ کے گھر کی عمارت تقریباً پچیس سال پرانی ہے اور اس میں سولہ افراد مقیم ہیں، جنہیں قابض ریاست کی بربریت کے باعث بے گھر کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز قابض بلدیہ نے سلوان کے علاقے وادی حلوہ میں فلسطینی شہری ایاد قراعین کو بھی جبراً اپنے گھر کو مسمار کرنے پر مجبور کیا تھا۔
یہ تمام کاروائیاں قابض ریاست کی فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا حصہ ہیں، جو ان کے وجود، حقِ ملکیت، اور زندگی کو مسلسل خطرات سے دوچار رکھتی ہیں۔
یہ ہولناک درندگی فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے خوابوں کو مسمار کرنے کی سازش ہے، جسے عالمی برادری کی فوری اور موثر مداخلت کی ضرورت ہے۔