القدس میں صہیونی بربریت: تین فلسطینی شہید، اٹھہتر گرفتار، چونسٹھ گھر مسمار
روزنامہ قدس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، جولائی میںقابض اسرائیل نے 3 فلسطینی شہید کیے، جن میں ایک معصوم بچہ شامل ہے، اور 47 شہداء کے جسد خاکی قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) بیت المقدس میں صہیونی دہشت گردی پر جاری کردہ ایک ماہانہ رپورٹ کے مطابق، جولائی کے مہینے میں قابض اسرائیل نے نہ صرف تین فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل تھا، بلکہ سینتالیس شہداء کے جسدِ خاکی بھی تاحال اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی کے دوران بیت المقدس اور اس کے باشندوں کے خلاف قابض اسرائیل کی بربریت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، جس نے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں بلکہ مقدس مقامات کی بے حرمتی میں بھی اضافہ کیا۔ رپورٹ میں اس صورتحال کو مستقبل میں سنگین اور دھماکہ خیز حالات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام اقدامات قابض اسرائیل کی نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جس کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس کو اس کے حقیقی باشندوں سے خالی کر کے اپنے صہیونی منصوبوں کو مسلط کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قابض افواج اور صہیونی آباد کاروں کے حملوں میں کم از کم پندرہ فلسطینی زخمی ہوئے، جنہیں براہِ راست گولیوں، ربڑ کی گولیوں، وحشیانہ مار پیٹ اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران اٹھہترفلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں چھ بچے اور پانچ خواتین شامل ہیں۔ یہ گرفتاریاں رات کے اندھیرے میں گھروں پر چھاپے مار کر، سڑکوں پر گھیراؤ کر کے اور بے بنیاد الزامات کے تحت کی گئیں۔ قابض اسرائیلی فوجی عدالتوں نے ان گرفتاریوں کے بعد چوالیس فلسطینیوں کو جیل کی سزائیں سنائیں جن میں سے پچیس کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے انتظامی حراست میں رکھا گیا۔
جولائی کے دوران، قابض افواج نے نو فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ اور پرانے القدس شہر کے اطراف سے زبردستی بے دخل کر دیا۔ ان میں مسجد اقصیٰ کے محافظ، مرابطین اور مذہبی شخصیات شامل تھیں۔ اس کے علاوہ دو فلسطینیوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور دو کو بیرونِ ملک سفر کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ بیت المقدس گورنری نے ان اقدامات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد فعال اور باوقار فلسطینیوں کو ان کے دینی، قومی اور عوامی کردار سے محروم کرنا ہے۔
جولائی کے مہینے میں چو ن ہزار اٹھہتر صہیونی آباد کار مسجد اقصیٰ کے مقدس احاطے میں داخل ہوئے، جن میں سے دو ہزار چار سو چوراسی نے نام نہاد سیاحتی سرگرمیوں کی آڑ میں شرمناک تلمودی رسومات اور مذہبی اشتعال انگیز کارروائیاں کیں۔ بیت المقدس گورنری نے اس عمل کو قبلہ اول کی حرمت کی کھلی پامالی اور ایک مذہبی نوآبادیاتی تسلط قائم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ کے مطابق صہیونی آباد کاروں نے ماہِ جولائی میں کم از کم ینتیس حملے کیے جن میں نہتے فلسطینی شہریوں، ان کی گاڑیوں، کھیتوں اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں آگ لگانا، توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ ان تمام کارروائیوں کو قابض اسرائیلی افواج کی مکمل سرپرستی حاصل تھی جو آباد کاروں کو کھلی چھوٹ دے رہی ہیں۔ قابض اسرائیلی بلدیہ نے چونسٹھ مکانات، تجارتی مراکز اور زرعی تنصیبات کو مسمار کر دیا، جن میں کئی وہ عمارتیں بھی شامل تھیں جنہیں فلسطینیوں نے اپنی مجبوری کے تحت خود اپنے ہاتھوں سے گرایا تاکہ بھاری جرمانوں اور گرفتاریوں سے بچ سکیں۔
قابض اسرائیلی حکام نے جولائی کے مہینے میں پانچ نئے صہیونی بستیوں کے منصوبوں کی منظوری دی، جو نام نہاد گریٹر یروشلم منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان کا مقصد بیت المقدس کو اس کے فلسطینی ماحول سے الگ کر کے صہیونی بلاکس میں تبدیل کرنا ہے۔
بیت المقدس گورنری نے رپورٹ کے اختتام پر کہا کہ یہ تمام اعداد و شمار ایک منظم جرم کی تصویر پیش کرتے ہیں جس کا مقصد شہر کی شناخت کو مٹانا، اس کی اسلامی، عربی اور فلسطینی روح کو ختم کرنا اور قابض اسرائیل کی استعماری حقیقت کو مسلط کرنا ہے۔ محکمہ نے بین الاقوامی برادری کی خاموشی کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے عالمی ضمیر سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر حرکت میں آئے اور بیت المقدس کے نہتے شہریوں کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کرے۔ محکمہ نے زور دیا کہ اقوام متحدہ فوری طور پر بیت المقدس میں بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹیاں بھیجے تاکہ قابض اسرائیل کے جرائم کا ریکارڈ محفوظ کیا جا سکے اور انہیں عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "القدس ہمیشہ فلسطینی اور اسلامی رہے گا، چاہے قابض اسرائیل کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے۔ اس کے باشندے ہر قیمت پر اپنے حقِ آزادی، وقار اور خودمختاری کا دفاع کرتے رہیں گے۔”