(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی قیدیوں کے امور کی سرکاری کمیٹی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جیل انتظامیہ دانستہ طور پر فلسطینی قیدیوں کو بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے اور ان کے علاج معالجے میں مسلسل اور جان بوجھ کر غفلت برت رہی ہے۔
جاری کردہ اس بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور ان سب کو ایک منظم منصوبے کے تحت بدترین جرائم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قیدیوں کے وکلاء کی جانب سے حاصل کردہ شہادتوں نے اس غیر انسانی رویے کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر جنین کے مغربی علاقے "یعبد” سے تعلق رکھنے والے قیدی حسن عماد ابو حسن گزشتہ تین ماہ سے سکیبیز (خارش کی ایک شدید بیماری) میں مبتلا ہیں۔ یہ بیماری انہیں گرفتاری کے پہلے ہی دن اس وقت لگی جب انہیں ایک ایسے بستر پر سونے پر مجبور کیا گیا جس پر پہلے سے ایک بیمار قیدی موجود تھا۔
اسی طرح الخلیل کے مغربی علاقے بیت اولا کے رہائشی قیدی علاء العدم شدید جلدی الرجی اور جلن کا شکار ہیں خاص طور پر اپنی رانوں کے حصے میں۔ لیکن اس سنگین حالت کے باوجود غاصب جیل حکام انہیں علاج فراہم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
دورا کے بلال عمرو جو عوفر جیل میں قید ہیںجو شدید کمر اور پاؤں کے درد میں مبتلا ہیں۔ ان کی ہڈیوں میں لگی پلیٹیں اس درد کی بنیادی وجہ ہیں لیکن بار بار درخواست کے باوجود انہیں درد کش ادویات فراہم نہیں کی گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بینائی کی شدید کمزوری کا بھی شکار ہیں جس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
جمعرات کو قیدیوں کے امور کی کمیٹی اور فلسطینی قیدیوں کے کلب کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں جسمانی اور ذہنی اذیت کی دیگر لرزہ خیز تفصیلات بھی سامنے آئیں۔ متعدد قیدیوں نے بتایا کہ انہیں زبردستی شراب پلائی گئی، ان پر گرم پانی پھینکا گیا اور انہیں وحشیانہ طریقوں سے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
یاد رہے کہ ساتھ اکتوبر 2023 سے قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ وحشیانہ جنگ کے بعد سے متعدد فلسطینی قیدی جیلوں میں تشدد، خوراک کی کمی اور طبی غفلت کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان شہادتوں کی تصدیق کی ہے۔
قابض اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت دس ہزار آٹھ سو سے زائد فلسطینی قید ہیں جن میں چار سو پچاس سے زائد بچے، پچاس خواتین، اور تین ہزار چھ سو انتیس افراد بغیر کسی الزام کے انتظامی حراست میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں فلسطینی غزہ سے لاپتہ ہیں۔