اونروا کا مالی بحران: پناہ گزینوں کی خدمات معطل ہونے کوامکان
ادارے کی طرف سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ موجودہ دستیاب مالی وسائل صرف جون کے آخر تک کے لیے کافی ہیں۔ اس کے بعد انروا کے تمام آپریشنز بند ہو سکتے ہیں
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے قائم ادارہ انروا ایک گہرے مالیاتی بحران سے دوچار ہے جو ادارے کی بقا اور اس کے تحت فراہم کی جانے والی بنیادی خدمات کو سنگین خطرے میں ڈال رہا ہے۔
انروا کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے ایک بیان میں انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بحران محض غزہ یا مقبوضہ مغربی کنارے تک محدود نہیں بلکہ اردن، لبنان، شام اور مقبوضہ بیت المقدس سمیت ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں انروا اپنی خدمات انجام دیتی ہے۔ ان کے مطابق، ادارے کو اس وقت دو سو ملین ڈالر کے شدید مالی خسارے کا سامنا ہے۔
ابو حسنہ نے عالمی برادری سے فوری طور پر حرکت میں آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انروا کی یہ ذمہ داری تنہا نہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تمام رکن ممالک کی مشترکہ اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔
ادارے کی طرف سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ موجودہ دستیاب مالی وسائل صرف جون کے آخر تک کے لیے کافی ہیں۔ اس کے بعد انروا کے تمام آپریشنز بند ہو سکتے ہیں۔
انروا دنیا بھر میں فلسطینی پناہ گزینوں کو تعلیم، علاج، امداد، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، کیمپوں کی بہتری، سماجی فلاح، چھوٹے قرضے اور ہنگامی حالات میں فوری مدد جیسی خدمات فراہم کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مسلح تصادم یا صہیونی درندگی کی وجہ سے انسانی بحران جنم لیتے ہیں۔
یہ ادارہ رضاکارانہ عطیات سے چلتا ہے جو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرف سے دیے جاتے ہیں۔ مگر گزشتہ برسوں میں اس مالی معاونت میں واضح کمی آئی ہے جس کی وجہ سے اب فلسطینی پناہ گزین بچوں، خواتین اور بزرگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
پچھلے ہفتے قطر ڈیولپمنٹ فنڈ نے ایک خوش آئند اقدام کے تحت انروا کے ساتھ معاہدہ کیا، جس کے تحت 2025ء اور 2026ء میں ادارے کو بیس ملین ڈالر فراہم کیے جائیں گے، یعنی ہر سال دس ملین ڈالر۔ قطر نے 2023ء اور 2024ء میں بھی اٹھارہ ملین ڈالر کی مالی مدد فراہم کی تھی۔
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ عالمی ادراوں نے قابض اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی پالیسیوں پر خاموشی اختیار کر لی ہے اور اس درندگی کا شکار بننے والے بے گھر فلسطینیوں کی واحد امید انروا اب خود بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر یہ ادارہ بند ہوتا ہے تو لاکھوں معصوم فلسطینی مرد، خواتین اور بچے تعلیم، صحت اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو جائیں گے۔