فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت کے جلو میں صہیونی حکام کا اصل چہرہ بھی سامنے آنے لگا ہے۔ اسرائیلی نائب وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں کو کسی صورت میں نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنہ 67ء سے پہلے والی پوزیشن پرجانا اسرائیل کی خود کشی ہوگی۔
صہیونی نائب وزیرخارجہ اسرائیلی ریڈیو زیوالکین سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پیش روؤں نے مذاکرات میں پسپائی اختیار کرنے کی پالیسیوں پر عمل شروع کیے رکھا، جس کے نتیجے میں مشرق وسطی میں دیر پا امن کے قیام میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی۔
یورپی یونین کی جانب سے اسرائیل کی یہودی بستیوں کے بائیکاٹ سے متعلق سوال کے جواب میں مسٹر الکین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فیصلوں کا اسرائیل کی صحت پر تو کوئی اثرنہیں پڑتا البتہ فلسطینیوں کی ہٹ دھرمی میں ضرور اضافہ ہوا۔ یورپی یونین ایک طرف راست مذاکرات پر زور دے رہی ہے اور دوسری جانب اسرائیلی کالونیوں کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔
اسرائیل نے یورپی یونین کو بائیکاٹ کے فیصلے پر نظرثانی کا کہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کو یورپی یونین پر یہ واضح کرنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ یک طرفہ اور جانب دارانہ فیصلہ نہیں ہے۔ نیز کیا اس طرح کے اقدامات سے امن بات چیت کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے یورپی یونین نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بنائی گئی یہودی بستیوں کو اسرائیل سے باہر علاقے قرار دے کران کی مصنوعات اور ان کے ساتھ کسی قسم کے لین دین سے انکار کردیا تھا۔ یورپ کے اس اقدام پر اسرائیل میں سخت تشویش کی لہربھی دوڑ گئی تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین