فلسطینی سیاسی وسماجی کارکن اور نیشنل ایکشن کمیٹی برائے دفاع القدس کے رکن راسم عبیدات نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے بیت المقدس کے دفاع کے لیے صرف ایک فی صد بجٹ مختص کر کے مقدسات کے دفاع کے معاملے میں بھونڈا مذاق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کی ایک طرف اسرائیل بیت المقدس کو یہودیانے اوراس کا تشخص مٹانے کے لیے تمام وسائل جھونک رہا ہے اور دوسری جانب اس کے دفاع کے لیے مختص کی جانے والی رقم نہایت معمولی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق رام اللہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راسم عبیدات نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ بیت المقدس کی آزادی اور اس کا دفاع رام اللہ اتھارٹی کی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہ بیت المقدس کے دفاع کے لیے عالم اسلام کی جانب سے بھی مبینہ غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے لیکن فلسطینی اتھارٹی نے لاپرواہی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے رہ نماؤں کی جانب سے دفاع قبلہ اول اور بیت المقدس کے تحفظ کے صرف نمائشی دعوے ہی سننے کو مل رہے ہیں۔ صرف میڈیا پر بیان بازی کی حد تک بیت المقدس کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ عملا فلسطینی اتھارٹی مبینہ غفلت کی مرتب ہو چکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے 14 ملین ڈالر کے سالانہ بجٹ کا صرف ایک فی صد بیت المقدس کےدفاع پر خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں نام نہاد سیکیورٹی اداروں پر بجٹ کا 37 فی صد صرف کیا جا رہا ہے۔
رام عبیدات کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بیت المقدس کے دفاعی بجٹ میں کمی کی ایک وجہ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے رام اللہ اتھارٹی کے سالانہ بجٹ میں مداخلت بھی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو اسی شرط پر امداد فراہم کی جا رہی ہے کہ وہ بیت المقدس کو اپنی ترجیحات سے نکال دے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی سالانہ چند ملین ڈالر کی رقم بیت المقدس کے دفاع پر صرف کرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیلی بلدیہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے سالانہ 129ملین ڈالر کی خطیر رقم صرف کر رہی ہے۔ جبکہ اسرائیل کی مرکزی حکومت بیت المقدس کے لیے سالانہ 574 ملین ڈالر سے 861 ملین ڈالر تک رقم صرف کر رہی ہے۔