اسرائیل کی جیلوں میں زیرحراست ہزاروں فلسطینیوں میں ایک قابل ذکرتعداد ان اسیران کی بھی ہے جوسال ہا سال سے صہیونی عقوبت خانوں اور حراستی مراکز میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
انہی میں مغربی کنارے کے ایک پچپن سالہ محمد احمد عبدالمجید الطوس بھی ہیں جو اسرائیلی جیل میں ستائیس سال قید مکمل کرنے کے بعد اب اٹھائیسویں سال میں داخل ہوگئے ہیں۔
فلسطینی اسیران کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم’’مرکز برائے اسیران‘‘ کے ڈائریکٹر ریاض الاشقر نے جمعہ کے روز مغربی کنارے کے شہرالخلیل میں صحافیوں کو بتایا کہ الخلیل شہر ہی کی محمد احمد الطوس نامی اسیر قدیم ترین اسیران میں گیارہویں نمبر پرٓٓ گیا ہے۔ وہ ان گیارہ اسیران میں شامل ہے جو اس وقت اپنی اسیری کے تیسرے عشرے میں داخل ہونے والے ہیں یا داخل ہوچکے ہیں۔
ریاض نے بتایا کہ احمد الطوس کو 06 اکتوبر 1985 ء کو قابض صہیونی فوجیوں نے الخلیل شہر سے حراست میں لیا تھا۔ الطوس شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے اور ایک بچی بھی ہے۔ الطوس کو اسرائیلی عدالت سے صہیونی فوجیوں پر قاتلانہ حملوں کے الزام میں کئی بارعمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے مندوب ریاض الاشقر نے اسیرکو طویل سزا کے باوجود رہا نہ کرنے پرصہیونی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اسیران کے معاملے میں صہیونی حکومت اور اس کے تمام ریاستی ادارے عالمی انسانی حقوق اور بنیادی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسیر احمد عبدالمجید الطوس کئی جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں اور اس کے باوجود صہیونی حکومت نے انہیں رہا کرنے کے بجائے مزید قید میں ڈال رکھا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین