فلسطینی جماعتوں کے مابین ہونے والی مفاہمت کے نتیجے میں بننے والی مفاہمتی کمیٹی کے رکن اسماعیل اشقر کا کہنا ہے کہ غزہ کی فلسطینی حکومت کے زیر حراست فتح کے اٹھارہ افراد سیاسی نہیں بلکہ مجرمانہ بنیادوں پر گرفتار کیے گئے ہیں۔
تاہم ان کی رہائی مغربی کنار ے میں زیر حراست حماس کے سیاسی اسیران کی آزادی پر موقوف ہے۔
واضح رہے کہ قاھرہ میں مصری ثالث کار کی موجودگی فلسطینی بنیادی آزادیوں کی کمیٹی نے دیگر متعدد امور پر اتفاق کے ساتھ ساتھ غزہ میں فتح کے زیر حراست اٹھارہ افراد کی رہائی پر بھی اتفاق کیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی ’’قدس پریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اشقر کا کہنا تھا کہ غزہ میں فتح سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ اسیران کی رہائی کو مغربی کنارے میں حماس کے سیاسی اسیران کی رہائی سے مشروط کر دیا گیا تھا حالانکہ فتح کے گرفتار کارکن سیاسی وجوہات کے بجائے جرائم پیشہ کارروائیوں کی وجہ سے گرفتار کیے گئے تھے۔
ریاض اشقر کا کہنا تھا ہم نے غزہ میں مقید تمام افراد کی فہرستیں مصری واسطہ کار کے سامنے رکھ دی ہیں اب فتح کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی کنارے میں حماس کے زیر حراست افراد کی فہرست مصر کو پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے جو طلب کیا گیا ہم نے وہ کر دیا اب فتح کے ذمہ ہے کہ فلسطینی مفاہمت پر جلد از جلد عمل کرے۔
ریاض اشقر نے زور دے کر کہا کہ اس وقت حماس کے زیر حراست فتح سے تعلق رکھنے والے پچاس افراد ہیں ان میں سے کوئی بھی کسی جرم میں گرفتار نہیں سب کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے غزہ حکومت کے زیر حراست افراد تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں سات افراد قتل اور اقدام قتل کے مقدمے میں قید ہیں۔ پندرہ افراد اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں جبکہ چودہ افراد فلسطینی مفاہمت کے خلاف اقدامات اوران کی معلومات اسرائیل کو فراہم کرنے کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ سترہ افراد امن عامہ میں خلل کے الزام میں گرفتار ہیں۔
مفاہمتی کمیٹی کے رکن نے انکشاف کیا کہ جن افراد کو رہا کرنے کا کہنا تھا کہ اوپر ذکر کردہ تیسری اور چوتھی اقسام کے اٹھارہ افراد کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ فتح یہ جانتے ہوئے بھی کہ غزہ میں قید تمام افراد کریمنل مقدمات میں ملوث ہیں انکی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حماس کے قائد کا کہنا تھا ہم نے فتح کو کہا تھا کہ زیر حراست ان افراد کے خلاف مقدمات کی فائلیں کھلی ہیں، ان لوگوں نے اپنے اسرائیل کے ساتھ تعلق اور اس کے لیے جاسوسی کے اعتراف کر رکھے ہیں چانچہ جن لوگوں کی اسرائیل کے ساتھ وابستگی ثابت ہوجائے اسے فتح سے نکال دیا جائے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فتح نے ہماری بات پر کان نہیں دھرا اور وہ اب تک ان سب کی رہائی کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
انہوں نے مغربی کنارے میں زیر حراست حماس کے گرفتار کارکنوں کی تعدادکے بارے میں بتایا کہ ایسے قیدیوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں تاہم یہ سو سے زائد افراد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ نومبر میں فتح کو 105 افراد کی فہرست دی تھی جن میں سے 64 کو رہا کردیا گیا تاہم اس کے دو ماہ بعد ہی جیلوں میں اسیران کی تعداد 117 ہوگئی تھی، اس سے یہ بات بڑی واضح معلوم ہو جاتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مفاہمت کے باوجود حماس کے کارکنوں کی گرفتاریاں تیزی سے جاری ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین