پانچ سال قبل فلسطینی عسکری تنظیموں کے ایک کمانڈو آپریشن میں اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار گیلاد شالیت کی گرفتاری اوراسے مسلسل پانچ سال تک صہیونی انٹیلی جنس اداروں کی نظروں سے اوجھل رکھنا فلسطینی مزاحمت کاروں کی کامیاب ترین دفاعی حکمت سمجھی جا رہی ہے۔ یہ مزاحمت کاروں ہی کی طے کردہ حکمت عملی تھی جس کے باعث اسرائیلی فوج اور اس کے سراغ رساں ادارے تمام تر وسائل کے استعمال کے باوجود گیلاد شالیت کے ٹھکانےکا پتا نہ چلا سکے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو یہ توقع تھی کہ اس کی انٹیلی جنس گیلاد شالیت کے ٹھکانے کا سراغ لگا لے گی اور جس کے بعد کسی کمانڈو آپریشن میں اسے چھڑا لیا جائے گا لیکن عملا پانچ سال تک ایسا نہ ہوسکا۔ البتہ گیلاد شالیت کے مسلسل اغواء نے اسرائیلی فوج میں ایک ان دیکھا خوف نفسیاتی دباؤمیں شدید اضافہ کیا۔ جس کے نتیجے میں قابض صہیونی فوجی بالآخر عسکری خدمات سے فرار ہونے لگے ہیں۔
ماہرین دفاع کا خیال ہے کہ گیلاد شالیت کی پانچ سالہ حراست نے جہاں اسرائیلی فوج میں اپنی ناکامی کا احساس ہوا ہے وہیں اپنے عدم تحفظ کا بھی احساس ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا یہ کہ گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلےمیں ایک ہزاس ستائیس فلسطینیوں کی رہائی میں کسی فریق کی فتح اور شکست سے قطع نظر اسرائیلی فوج کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ پانچ سال تک گیلاد کو کسی کمانڈو آپریشن میں رہا نہ کروا کر بدترین ہزیمت کا شکار ہوئی ہے۔
ماہرین دفاع اور ماہرین نفسیات اس بات پربھی متفق ہیں کہ ایک جانب جدید اسلحہ اورلاجسٹک اسپورٹس وانٹیلی جنس وسائل سے لیس ریاست اوردوسری جانب مٹھی بھر مزاحمت کےسامنے ناکامی کے بعدعوامی حلقوں میں بھی فوج کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
خود فوج میں بھی جدید ترین جاسوسی کے آلات کے استعمال کے باجود گیلاد کے ٹھکانے پر رسائی میں ناکامی کے بعد اعلیٰ عسکری قیادت پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ نچلی سطح پر فوج کو اپنے افسران سے یہ گلہ بھی ہے کہ وہ مسلسل یہ راگ آلاپتے رہے کہ انہیں گیلاد شالیت کے ٹھکانے کا علم ہے اور کسی بھی وقت وہ آپریشن کر کے اسے رہا کرا لیں گے لیکن ان کے یہ دعوے فوج میں نفسیاتی دباؤ اور ڈیپریشن میں اضافے کے سوا اور کچھ اثر نہ دکھا سکے۔ بالآخر اسرائیلی حکومت کو حماس جیسی اپنی دشمن تنظیم کی شرائط کے آگے جھکتے ہوئے ایک ہزارسے زائد اسیران کی رہائی کا اعلان کرنا پڑا ہے۔